سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(286) تکبیرات جنازہ میں رفع یدین

  • 21179
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2121

سوال

(286) تکبیرات جنازہ میں رفع یدین

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جنازہ میں تکبیرکے وقت رفع الیدین کے بارے میں کیا حکم ہے؟اس بارے میں البانی رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب (جنازے کے مسائل)میں ترمذی اور دارقطنی سے دو حدیثیں پیش کی گئی ہیں۔ جس میں پہلی تکبیر کے وقت رفع الیدین کرنے کا حکم ہے۔ اس کی مکمل تفصیل بتائیے ۔(ابو طلحہ حافظ ثناء اللہ شاہد القصوری)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز جنازہ کی تکبیروں کے وقت رفع الیدین کرنا بالکل صحیح ہے۔امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"وقد سئل الدارقطني في العلل : عَن حَديث نافع، عَن ابن عُمر؛ أَن النَّبي صَلى الله عَليه وسَلمَ كان إِذا صلى على جِنازة رفع يديه في كل تكبيرة، وإِذا انصرف" 

"سیدنا ابن عمر( رضی اللہ  تعالیٰ عنہ ) سے روایت ہے۔کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز جنازہ پڑھتے تو ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے اور جب پھرتے(نماز ختم کرتے)تو سلام کہتے تھے ۔(کتاب العلل للدارقطنی 13ص22ح2908)

اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔ امام دارقطنی اور یحییٰ بن سعید الانصاری دونوں تدلیس کے الزام سے بری ہیں۔دیکھئے الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین (ص26،32)

عمر بن شبہ صدوق حسن الحدیث ہیں۔ احمد بن محمد بن الجراح اور محمد بن مخلددونوں ثقہ ہیں۔

 دیکھئے تاریخ بغداد (4/409ت2312،3/310،311ت1406)

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نماز جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے تھے۔(جزء رفع الیدین للبخاری تحقیق  شیخنا ابی محمد بدیع الدین الراشدی السندھی ص184ح 109،111)

اس کی سند صحیح ہےاور اسے ابن ابی شیبہ (3/296)اور بیہقی (4/44) وغیرہمانے بھی روایت کیا ہے۔

حافظ ابن حجر العسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کی سند کوصحیح کہا ہے۔(التلخیص الجیر ج2ص146ح807)شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اسے"بسند صحیح "کہا ہے(حاشیہ احکام الجنائز)

جنازے کی تکبیرات میں رفع الید ین کرنا قیس بن ابی حازم رحمۃ اللہ علیہ  (تابعی کبیر)نافع بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ  ،عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ  ،مکحول رحمۃ اللہ علیہ ،وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ  اور الزہری رحمۃ اللہ علیہ  سے ثابت ہے۔(دیکھئے جزء رفع الیدین ح112،114،118)

یہی قول (و عمل)عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ ، سالم بن عبد اللہ بن عمر رحمۃ اللہ علیہ  ، ازواری رحمۃ اللہ علیہ  ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ  ،احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہم کا ہے(الاوسط لا بن المنذرج5ص427)

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  سے بھی ایک قول ، تکبیرات جنائز میں رفع الیدین کرنا پسند یدہ ہے۔ مروی ہے۔(ایضاً)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب العلل سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز جنازہ میں رفع الیدین کرنا مروی ہے۔(التلخیص الجیرج2ص146)

مجھے اس کی سند نہیں ملی۔ اگر عمر بن شبہ تک سند صحیح ہو تو یہ سند حسن ہے کیونکہ عمر بن شبہ بذات خود صدوق حسن الحدیث راوی تھے۔

(بعد میں سند مل گئی ہے جو کہ عمر بن شبہ تک صحیح لہٰذا یہ روایت حسن لذاتہ ہے دیکھئے کتاب العلل للدارقطنی 13/22ح2908)

اس کے مقابلے میں شیخ محمد ناصر الدین البانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے جو دو روایتیں پیش کی ہیں ان پر مختصر و جامع تبصرہ سن لیں۔

1۔ "عن أبي هريرة رضي الله عنه من أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كبر على جنازة فرفع يديه في أول تكبيرة ووضع اليمنى على اليسرى"

(احکام الجنائز للالبانی ص115والترمذی ح1077،بتحقیقی وقال :"غریب"البیہقی 4/38،الدارقطنی 2/74،ح1812مختصراً و 1813،وابو الشیخ فی طبقات الاصبہانیین ص262بحوالہ البانی)

اس کی سند ضعیف ہے۔اسے شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی "بسند ضعیف"قراردیا ہے۔اس کا راوی ابو فروۃ یزید بن سنان التمیمی الرھاوی ضعیف ہے۔(تقریب التہذیب ص558)اس پر جرح کے لیے تہذیب التہذیب اور میزان الاعتدال وغیرہما دیکھیں۔یحییٰ بن یعلیٰ (الاسلمیٰ )ضعیف (تقریب التہذیب ص556و تہذیب التہذیب ج2/534)نے یہی روایت یونس بن خباب عن الزہری نقل کی ہے۔تحفۃ الاشراف(10/13117)

خلاصہ یہ کہ یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔

2۔ "عن ابن عباس ، رضي الله عنهما ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه على الجنازة في أول تكبيرة ، ثم لا يعود"(سنن دارقطنی ج2 ص75ح1814،وقال محشیہ:"اسنادہ ضعیف ")

ان دونوں روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز جنازہ کی صرف  پہلی تکبیر میں ہی رفع الیدین کرتے تھے۔

دوسری سند بھی ضعیف ہے اس کا راوی حجاج بن نصیر ضعیف ہے۔

(تقریب التہذیب ص96،98،وزاد،کان یقبل التلقین)

دوسرا راوی الفضل بن السکن مجہول ہے۔ کماقال العقیلی  رحمۃ اللہ علیہ

شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  بھی اسے مجہول العین راوی کی روایت سخت ضعیف بلکہ بعض اوقات موضوع بھی ہوتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ روایت اپنی دونوں(یا تینوں)سندوں کے ساتھ ضعیف ہی ہے لہٰذا مردود ہے۔(شہادت نو مبر2001ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الجنائز-صفحہ530

محدث فتویٰ

تبصرے