سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(273) سوگ کتنے دنوں تک ہوتا ہے؟

  • 21166
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2344

سوال

(273) سوگ کتنے دنوں تک ہوتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض  علاقوں میں ایسا  ہوتا  ہے کہ مرنے  والے  کے بعض  رشتہ داراور  دوست ا س کی وفات  کے بعد چارپائیوں  یا چٹائیوں  وغیرہ  پر تین  یا چالیس  دنوں  کے لیے  بیٹھ  جاتے  ۔ پھر جو لوگ تعزیت  کے لئے  آتے  ہیں تو ان  میں  سے  ہر آدمی با آواز  بلند  یہ کہتا  ہے کہ دعا کریں ۔ پھر  سب  لوگ ہاتھ  اٹھا کر  دعا  کرتے  ہیں،

اس طرح  کی مروجہ  دعا، متعین  جگہ  اہل میت  اور لوگوں  کا اجتماع ، تعزیت  کے دنوں  تعین  اور مروجہ  طریقہ  تعزیت  کا ثبوت  کیا ہے ؟ قرآن  وحدیث  سے جواب دیں ۔ جزاکم اللہ خیراً (ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

چالیس دنوں تک  تعزیت  کے لیے  بیٹھنا ، ہر آدمی  کا بآواز بلند دعا کا مطالبہ  کرنا  اور پھر سب  لوگوں  کا میت  کے لیے  ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا یہ سب  بدعت  ہے  جس کا کوئی ثبوت  شریعت مطہرہ  میں موجود نہیں ہے۔

 سیدنا جعفر بن ابی طالب  الطیار  رضی اللہ عنہ  کی شہادت  کے بعد نبیﷺ نے آل جعفر کو تین  دنوں  کی مہلت  دی  پھر  ان  کے پاس  جاکر فرمایا : آج  کے بعد میرے  بھائی پر  نہ رونا۔ ( سنن  ابی داود:4192 وسندہ صحیح )

 اس حدیث سے معلوم  ہوا کہ  میت  پر تین  دنوں  سے زیادہ  سوگ  کرنا جائز نہیں  ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ  سے روایت  ہے کہ جب  زید  بن حارثہ ، جعفر ( طیار ) اور عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ عنہ )  کی شہادت  کی خبر آئی  تو رسول  اللہ ﷺ بیٹھ  گئے ۔آپ  کے چہرے  پر غم کے آثار  نظر  آرہے تھے۔ (صحیح  بخاری  :1299،صحیح مسلم : 935 وترقیم  دارالسلام :2161)

اس سے معلوم  ہوا کہ  اہل  میت  کا ( تعزیت  والوں  کے لیے ) بیٹھنا جائز  ہے۔واللہ اعلم یاد رہے  کہ عورت  اپنے خاوند  کی وفات  پر چار  مہینے دس  دن  سوگ منائے گی۔

تعزیت  کی ایک مشہور دعا درج ذیل  ہے:

((ان لله  مااخذ وله  مااعطي  وكل  عنده  باجل  مسمي ّ)) بے شک  اللہ ہی کے  لیے  ہے جو وہ عطا فرمائے  اور ہر  چیز  اس کے پاس ایک خاص وقت  کے لیے ہے ۔(صحیح  بخاری :1284 واللفظ لہ ،صحیح  مسلم :923 وترقیم  دارالسلام  :2135)

 میت  پر تعزیت  کے لیے  لوگوں  کا بار بار دعا کی درخواست کرنا  اور اجتماعی  طور  ہاتھ اٹھا کر دعا  کرنا  کسی حدیث  سے ثابت نہیں  ہے  سیدنا  عبداللہ  بن جعفررضی اللہ عنہ  سے ثابت  شدہ  ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺ ( سیدنا  جعفر رضی اللہ عنہ  کی شہادت  کے) تیب دب گزرنے کے بعد ہمارے پاس تشریف لائے تو  ہمارے  سر  منڈوادیے  پھر آپ  نے میرا (ایک ) ہاتھ  پکڑ کر بلند  کیا پھر فرمایا : اے اللہ آل جعفر کی نگہبانی  فرما اور  عبداللہ  بن جعفر کے لیے برکت  نازل  فرما ۔ ( مسند احمد 1/204ح 175 وسندہ  صحیح )

اس  حدیث  سے مروجہ  دعا کا کوئی  ثبوت  نہیں ملتا  بلکہ صرف   پیار  سے  نابالغ  بچے  کے ایک  ہاتھ  کو آسمان  کی طرف  بلند  کرنا ثابت ہے  ورنہ  صرف ایک ہاتھ سے  دعاکرنا کیسا ہے؟

ایک  غالی دیوبندی  نعیم  الدین  نے  " رجل الرشید" کے نام  سے ایک کتاب  لکھی ہے  ۔ نعیم  الدین  نے اس  کتاب میں اپنے دیوبندی  علماء  کے کئی فتوے نقل کئے ہیں  جن  میں تعزیت  کی مروجہ  دعا کو غیر  ثابت  اور  غیر درست  قراردیا  گیا ہے ۔ مثلا دارالافتاء  دارالعلوم  کراچی  کے محمد کمال الدین  اور محمود اشرف دونوں  لکھتے  ہیں: مروجہ طریقہ  کے مطابق تعزیت  کے لیے ہاتھ  اٹھا کر  فاتحہ پڑھنا  اور دعا کرنا  شرعا ثابت  نہیں ہے ۔اس لیے  تعزیت  کے لیے رسمی طور پر ہاتھ اٹھانا درست نہیں ۔ کیونکہ  تعزیت  کی حقیقت  صرف  اس قدر  ہے کہ   میت اور اس کے اقارب کے لیے زبانی دعا کی جائے  اور ان  کو صبر دلایا جائے ۔البتہ انفرادی طور پر  اگر میت  کیلئے ہاتھ  اٹھا کر  مغفرت  اور بلندی  درجات کی  دعا کرلی جائے   تو شرعا اس میں کوئی قباحت نہیں۔" ( رجل  رشید  ص171)

 دیو بندی  مفتی  رشید  احمد لدھیانوی  ایک سوال  کے جواب میں  لکھتے ہیں :

" تعزیت  کی دعا میں ہاتھ  اٹھانا  بدعت  ہے " (احسن الفتاوی  ج 4ص 254 رجل رشید  ص173)

 نعیم  الدین  دیوبندی  اپنے قاری  عبدالرشید  دیوبندی سے نقل  کرتے ہیں ، وہ  اپنے والد   دیوبندی مفتی عبدالحمید سے  کہ  قاری  لطف اللہ دیوبندی  صاحب  جب ایک حادثہ میں فوت  ہوئے  تو ایک  دیوبندی عالم  " تعزیت  کے لیے  ان کے پاس تشریف  لے گئے  اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔۔۔۔ فقیر اللہ صاحب  نے فورا فرمایا مولانا کیا یہ حدیث سے ثابت ہے ؟ انھوں نے  عرض کیا کہ حضرت غلطی ہوئی  اور ہاتھ  چھوڑدیئے  ( دیکھئے  رجل رشید ص 169)

 یہ فقیر اللہ دیوبندی  صاحب قاری  لطف اللہ دیوبندی  کے والد  اور  دیوبندی  مدرسے  جامعہ رشیدیہ  ساہیوال  کے بانی  تھے  جنھوں نے  اپنے بیٹے  کی موت  پر  مروجہ  دعا سے اشارتا منع  کردیا تھا۔ تعجب  ہے کہ  ہمارے علاقے  میں دیوبندی  حضرات بغیر  کسی انکار اور جھجک  کے اس  مروجہ دعا پر علم پیرا ہیں  حالانکہ  ان کے اپنے  مفتیان  کرام اس  عمل کو بدعت وغیر ثابت قرار دے چکے ہیں ۔اسی طرح  بعض الناس کے بعض نام نہاد علماء  کو " کیا یہ حدیث  ( دلیل) سے ثابت  ہے ؟" والے سوال  سے سخت  چڑ ہے  حالانکہ طرز عمل   یہ ہونا چاہیے کہ  دلیل  پوچھنے والے  سے ناراض  نہ ہوں  اگر دلیل  معلوم ہوتو بیان کردیں  یا پھر  کہہ دیں  کہ دلیل معلوم نہیں ہے ( الحدیث  :45)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الجنائز۔صفحہ512

محدث فتویٰ

تبصرے