سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(269) میت کے سلسلے میں چند بدعات اور ان کا رد

  • 21162
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2017

سوال

(269) میت کے سلسلے میں چند بدعات اور ان کا رد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض  لوگ میت  کو غسل  دینے  کے بعد یا میت  کو گھر سے جنازہ  گاہ( جہاں  میت  کی نماز  جنازہ  پڑھی  جاتی ہے ) کی طرف لے جانے  کے بعد حلوہ  تقسیم  کرتے ہیں  جسے قبر کا توشہ  کہا جاتا ہے ۔اس (حلوے ) توشے  کی شرعی  حثیت  کیا ہے ؟ دلیل  سے بیان  کریں  (ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس (حلوے) توشے  کا ثبوت  قرآن  وحدیث  میں قطعا نہیں ہے  اور نہ سلف  صالحین  سے یہ عمل  ثابت  ہے لہذا یہ بدعت  ہے۔صحیح  حدیث  میں آیا ہے  کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : (( وكل بدعة  ضلالة )) اور ہر بدعت   گمراہی ہے ۔ (صحیح  مسلم  :867/2005)

 مشہورمتبع  سنت صحابی  سیدنا  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :كل بدعة ضلالة وان  راها الناس حسنا" ہر بدعت  گمراہی ہے اگرچہ  لوگ  اسے حسن(اچھا ہی) سمجھتے  ہوں ۔ (السنۃ للمروزی :86 وسندہ صحیح )

 میت کے گھر والوں پر غم  وپریشانی  آئی ہوئی ہے اور انھیں  اس رسم پر مجبور کیا جارہاہے  کہ لوگوں کا منہ میٹھا کرنے کے لیے  (حلوہ ) توشہ  پکا کر کھلائیں ۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اردگرد کے لوگ کھانا پکا کر میت  کے گھرواوں  کو کھلاتے ۔ جب  سیدنا  جعفر بن  ابی  طالب  رضی اللہ عنہ  جہاد  فی سبیل اللہ  میں شہید ہوئے تو  رسول اللہﷺ نے لوگوں  سے فرمایا : ((اصنعوا لال جعفر طعاما‘ فانه  قد اتاهم امر  يشغلهم ))

آل  جعفر(جعفر رضی اللہ عنہ کے گھروالوں) کے لیے   کھانا تیار کرو کیونکہ  ان  پر ایسی  بات  آگئی  ہے  جس  نے انھیں  مشغول  کردیاہے ۔

(سنن  ابی داؤد :3132 مسند الحمیدی  بتحقیقی  :537 وسندہ  حسن  وصححہ  الترمذی  : 998 والحاکم 1/372 والذہبی )

 شیخ  محمد  ناصر  الدین  البانی ؒ شیخ  محمد  البر کونی ؒ کی کتاب  جلاء  القلوب  (77) سے نقل  کیا ہے  کہ لوگوں  کا اہل میت  کی طرف سے  کھانا کھانے  کی دعوت  قبول کرنا  بدعت  ہے ،  دیکھئے  احکام الجنائز وبدعہا(ص 256 فقرہ  :113)

 دوحہ  قطر  کے قاضی شیخ  احمد  بن حجر  البوطامی  فرماتے ہیں  : " میت  کے گھروالوں  اور متعلقین  کا تعزیت  وسوگ  کے لیے مجلس منعقد  کرنا اور تعزیت  وسوگ  کے لیے  مجلس منعقد کرنا اور تعزیت  کے لیے  آنے والوں  کے واسطے  تین  دنوں  تک  کھانا تیار  کرنا  بدعت ہے ۔بعض  لوگ یہ  مبتدعانہ  کام ایک  ہفتہ  تک کرتے ہیں اور  یہ فضول  خرچی  سے  کام  لیتے  ہیں ،مثلا بہت  جانور ذبح  کرتے  ہیں  اور انواع واقسام  کے کھانے  بناتے  ہیں  اور لوگ  مختلف  اطراف  وجوانب  سے آتے  اور کھاتے  ہیں ، کبھی  ایسا  بھی  ہوتا ہے کہ میت  کے ورثاء  چھوٹے  یتیم  بچے  ہوتے  ہیں  پھر بھی  لوگ  ان کے اموال  کو اس کام  میں خرچ  کر ڈالتے  ہیں ،اس  کے حرام  ہونے  میں کوئی  شک وشبہ  نہیں ہے،  کیونکہ  ی یتیموں  کا مال  زور زبردستی  اور جو  رو ظم  کے ساتھ  کھا جانے کے مترادف  ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد  ہے  کہ:﴿اِ نَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارً‌ا ﴾  جو لوگ  یتیموں  کا مال ظلماً کھا جاتے  ہیں بے شک  وہ لوگ  اپنی پیٹ  میں جہنم  کی آگ  کھا رہے  ہیں۔ (النساء:10)

 یہاں تک کہ وہ متاخرین  بھی  جو بہت  سے بدعات  کو حسنہ  قرار دیئے ہوئے  ہیں  اس فعل  کو " بدعت ضالہ" کہتے ہیں  کیونکہ  اس میں  سنت کی مخالفت پائی  جاتی  ہے۔ اس لیے  کہ سنت  یہ ہے کہ  میت  کے گھروالوں  کے لیے ان  کے پڑوسی  لوگ کھانا تیار کریں ، اور کھلائیں  جیسا کہ حدیث  میں آیا ہے  کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا  (( اصنعوا لال جعفر طعاما))  جعفر  ( جو جنگ  موتہ  میں  شہید  ہوگئے تھے ) کی  اولاد اور گھروالوں  کے لیے  کھانا تیار کرو۔( عام کتب  حدث)

 دوسری  بات  یہ ہے کہ  ایسا کرنا اسراف  وفضول  خرچی  ہے ، تیسری  بات  یہ ہے کہ  اس میں باطل  وناحق ( طریقے  سے) لوگوں  کا مال  کھالیا جاتا ہے کیونکہ  میت  کے ورثاء کبھی  کبھی  فقراء ہوتے  ہیں یا یتیم  بچے  ہوتے  ہیں  کبھی  کبھی  یہ لوگ  قرض  لے  کر  کھلانے  پلانے  والا یہ قبیح  وشنیع کام دوسرے  لوگوں کے ڈر سے کرتے ہیں،"( بدعات  اور ان  کا شرعی  پوسٹ  مارٹم  ص 675۔676)

خلاصہ  یہ کہ  مسئولہ  بالا عمل  جائز نہیں بلکہ بدعت سیئیہ ہے ۔

 تنبیہ  : فتاویٰ سمر قندی  کی ایک روایت  میں آیا ہے  کہ  (سیدنا ) عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :

اے مومنو! قرآن  کو مردوں  کی نجات  کا وسیلہ  بناؤ تو حلقہ  بنالو اور کہو : اے اللہ ! اس  میت  کو قرآن  مجید  کی حرمت  سے بخش  دے ۔الخ

اس روایت  کی سند  مردود ہے۔اس  میں عباس بن سفیان راوی  نامعلوم  ہے۔ اگر  اس سے  کتاب  الثقات  لابن حبان والا مجہول  الحال  راوی  مراد لیا جائے  تو ابو  اللیث سمر قندی  کی اس سے ملاقات  ثابت  نہیں  ہے  اور اگر  یہ کوئی  دوسرا مجہول  شخص ہے تو اس کی اسماعیل  بن ابراہیم  عرف  سے ملاقات  کا کوئی  ثبوت نہیں ہے ۔ (26/ نومبر  2007) (الحدیث : 45)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الجنائز۔صفحہ507

محدث فتویٰ

تبصرے