سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(244) دانوں والی مروجہ تسبیح کی شرعی حیثیت

  • 21137
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-01
  • مشاہدات : 1484

سوال

(244) دانوں والی مروجہ تسبیح کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل  رائج  تسبیح جو کہ نماز کے بعد لوگ کرتے ہیں جو کہ  دانوں  میں پروئی  ہوتی ہے ۔اس کا کیا حکم ہے ۔کیا یہ بدعت ہے یا نہیں ؟ یاد رہے کہ ہمارے  ہاں ایک نابینا  حافظ صاحب ہیں جو کہ اپنے آپ  کو حافظ الحدیث کہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں  کہ  سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہ سے یہ دانوں  والی  تسبیح  ثابت ہے  اور حدیث دارقطنی  کا حوالہ  دیتے  ہیں اور دعویٰ  کرتے  ہیں کہ  اگر کوئی  اس حدیث کو ضعیف ثابت  کرے  تو منہ  مانگا انعام دوں گا۔ براہ  مہربانی  تفصیل  بیان  کریں  (ابو طاہر  محمدی ،خانیوال )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مروجہ  آلہ  تسبیح  کا صریح  ثبوت میرے علم  میں نہیں ہے ،لہذا اس سےبچنا  بہتر ہے۔ مجوز ین  حضرات ان روایات سے استدلال  کرتے ہیں  جن میں  گھٹلیوں  پر گننا مذکور ہے ۔ مثلاً ایک عورت گھٹلیوں  یا کنکریوں  پر تسبیح  پڑھ  رہی تھی  تو  رسول اللہﷺ نے فرمایا : تجھے  میں اس کام  سے زیادہ  آسان  وافضل نہ بتادوں ؟ پھر  آپ نے  اسے ایک  دعاسکھائی ۔

دیکھئے  سنن ابی داود کتاب الوتر باب التسبیح  بالحصی  حدیث :1500

اس کی سند  حسن ہے ۔اسے امام ترمذی  (3567) نے  " حسن غریب " ابن حبان  (الموراد:2330) حاکم 1/548) اور ذہبی  نے صحیح کہا ہے ۔حافظ  الضیاء المقدسی  نے المختارہ میں ذکر کیا ہے ، بعض  جدید "محققین" کااسے  ضعیف کہنا  غلط ہے۔ اس حسن  لذاتہ  روایت کے  بہت سے شواہد  بھی ہیں ۔ دیکھئے "المنحة في  السبحة" للسیوطی (الحاوی للفتاوی 2/2)

 دیگر  آلات  تسبیح  تسبیح  واذکار  پڑھنا جائز  ہے ، بدعت نہیں ہے ،تاہم  افضل یہی ہے کہ  ہاتھ  کی انگلیوں  پر یہ گنتی  کی جائے ،۔

دارقطنی  والی روایت  فی الحال  مجھے یاد نہیں  ہے واللہ اعلم ۔( شہادت ،جون  2000ء)

 جواب : سنن  ابی داود (1500) کی ایک  روایت کا خلاصہ  یہ ہے کہ  ایک عورت  کھجور کی گھٹلیوں  یا کنکریوں  پر تسبیح  پڑھ رہی تھی  تو رسول اللہﷺ نے  اسے اس  سے بہتر کام ایک دعا سکھائی  ( یعنی آپ  نے اسے کنکریوں  اور گھٹلیوں  پر تسبیح  پڑھنے  سے منع  نہیں فرمایا ) اسے  ترمذی  (3568) نے حسن  غریب  "ابن حبان (2330) ذہبی ( تلخیص المستدرک  1/ 547، 548) اور ضیا مقدسی (المختارہ  3/209 ،210ح 1010،1011) نے صحیح قراردیا ہے۔

احمد  بن صالح (المصر ی ) ،۔ عبداللہ بن وہب ، عمر  وبن الحارث، سعید  بن ابی ہلال اور عائشہ  بنت  سعد سب  ثقہ  وقابل اعتماد ہیں ، سعید  مذکور اختلاط  کا الزام  مردود ہے ۔خزیمہ  مذکور کی  توثیق ابن حبان  ، ترمذی ، ذہبی  اور ضیاء المقدسی  نے  کر رکھی  ہے  لہذا حافظ  ابن حجر  وغیرہ  کا اسے (لایعرف ) کہنا صحیح  ے ۔اس روایت  کے بہت   سے شواہد  ہیں ۔ ( مثلا دیکھئے  المنحہ  فی  السبحۃ  للسیوطی  والحاوی  للفتاوی  ج 2ص7۔2)  شیخ  البانی ؒ نے اس روایت  کو ضعیف  قراردیا ہے  حالانکہ   یہ روایت  حسن لذاتہ  ہے اور شواہد  کے ساتھ  صحیح ہے ۔( شہادت  جنوری  2003ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ474

محدث فتویٰ

تبصرے