سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(208) نماز استسقاء کا طریقہ

  • 21101
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 665

سوال

(208) نماز استسقاء کا طریقہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بلوغ  المرام  باب الاستسقاء  میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے مروی  روایت  کا خلاصہ  یہ ہے کہ  نبیﷺ نے نماز  استسقاء نماز عید  کی طرح  پڑھی ۔( رواہ  الخمسہ  وصححہ  الترمذی  وابو عوانہ  وابن حبان ) اولا : روایت  ہذا کی (الف)  تخریج  درکار ہے ۔ ثانیا ؒ کیا اس  روایت  سے نماز استسقاء  نماز  عید  کی طرح  ( زائد تکبیرات  کے ساتھ) ادا  کرنی ثابت  وصحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ روایت کہ " ثم صلي  ركعتين  كما يصلي  في العيد  "الخ  بلحاظ  سند حسن ہے ۔اسے  ابوداود  ( کتاب  الصلوۃ  باب  جماع  ابواب صلوۃ  الاستسقاء  وتفریھا ح  1165) ترمذی  (558) ابن ماجہ  (1266) اور احمد  (1/230، 269۔355) نے   روایت کیا ہے ،اسے ابن حبان  (الاحسان  4/229ح 2851،مواد الظمان :603) ابن  خزیمہ (1405) اور ابوعوانہ  (6/33 القسم المفقود ) نے صحیح کہا ہے۔  اس کے ایک  راوی ہشام  بن اسحاق حسن الحدیث تھے ۔انھیں  ابن خزیمہ  ، ترمذی  اور ابن حبان  نے ثقہ قرار دیا ہے ۔حافظ  ذہبی نے کہا: صدوق " (الکاشف  3/194 ت 6060)

اس روایت  سے امام شافعی  وغیرہ نے  یہ دلیل پکڑی  ہے کہ  صلوۃ  الاستسقاء  میں عیدین  کی طرح  بارہ تکبیریں  کہنی چاہئیں ۔ جب کہ جمہور  نے  اس کی یہ تاویل  کی ہے  کہ اس  سے عیدین  کی دو رکعتوں  جیسی  تعداد ،قراءت  بالجہر  اور خطبہ  سے پہلے  کی نماز مراد ہے ۔واللہ اعلم  ( دیکھئے  عون المعبود ج1ص 453)

 شوافع  نے امام شافعی  ؒ  کی تائید  میں ایک  صریح روایت  بھی پیش کی ہے ۔جس کاراوی  محمد  بن عبدالعزیز منکرالحدیث ہے ۔دیکھئے تحفۃ الاحوذی  (ج 1ص390)

جمہور نے اپنی  تائید  میں المعجم  الاوسط للطبرانی (ج 10 ص42 ح 9104) سے ایک روایت  پیش کی ہے جس کا راوی  عبداللہ بن حسین  بن عطاء ضعیف  ہے ( دیکھئے  تقریب  التہذیب  :3275)

 دوسرے  راوی  مسعدہ  بن سعد  العطار  کے حالات  نہیں ملے  لہذا یہ دونوں  روایتیں  ضعیف ہیں ۔اس سلسلے میں امام شافعی  ؒ کا مسلک  قوی ہے ۔ تاہم دوسرے مسلک پر بھی عمل کی گنجائش ہے ۔ واللہ اعلم  ( شہادت ۔اکتوبر 2001)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ432

محدث فتویٰ

تبصرے