سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(167) رکوع کے بعد ہاتھوں کی کیفیت

  • 21060
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 622

سوال

(167) رکوع کے بعد ہاتھوں کی کیفیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب آدمی  رکوع سے  اٹھے  تو ہاتھ  کہاں رکھے ؟    ( صبغت اللہ محمدی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رکوع  سے  کھڑے  ہونے کے بعد نمازی  ہاتھ  باندھے  یا کھلے  رکھے  ،اس کے بارے میں علماء کے دو  موقف ہیں:

1)     ہاتھ باندھ لے

 یہ موقف  استاذ محترم  شیخ  ابو محمد بدیع الدین  الراشدی  السندھی  ؒ  اور بعض  دیگر علماء  کا ہے ۔استاذ محترم  نے اس سلسلے  میں متعدد رسائل  لکھے ہیں ۔ مثلاً

"زيادة  الخشوع يوضع اليدين  في القيام  بعد الركوع " وغیرہ

 انھوں نے  حالت  قیام میں ہاتھ باندھنے  والی احادیث کے عموم سے استدلال کیا ہے۔

 تنبیہ : سنن ابی داؤد (632) کی روایت  میں "السدل "(  کپڑا لٹکانے ) سے  منع آیا ہے لیکن  یہ روایت  نہ حسن  ہے  اور نہ صحیح بلکہ ضعیف ہے ۔ میرے علم کے مطابق یہ حدیث ، سیدنا ابو ہریرہ  اور سیدنا  ابو جحیفہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے۔

 سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ  سے اس کی تین سندیں ہیں :

 1۔ عسل بن سفیان  جمہور محدثین  کے نزدیک ضعیف ہے  ۔( مجمع  ترمذی  ،ابواب الصلوۃ  باب ماجاء فی کراھیۃ  السدل  فی الصلوۃ  ح 378)

اور اسے  امام بخاری ،ابن معین  اور احمد بن حنبل  ؒ  نے مجروح  قراردیا ہے ۔ابن حبان  کے سوا کسی نے  توثیق نہیں کی جبکہ   ابن حبان  نے خود اسے کتاب   المجروحين  من المحدثين  والضعفاء  والمتروكين  میں بھی ذ کر  کیا ہے ۔ ج 3ص195)

لہذا حافظ  ابن حبان  کے  دونوں  قول  متناقص ہو کر ساقط  ہوگئے ۔

 دیکھئے  میزان الاعتدال  (ج  2ص 552 ترجمہ  عبدالرحمن بن ثابت  بن الصامت )

2۔الحسن  بن ذکوان  عن سلیمان  الاحول  عن عطا عن ابی  ھریرۃ رضی اللہ عنہ  ( سنن  ابی داؤد ،الصلوۃ ' باب  السدل  فی الصلوۃ  ح  643)

 امام ابوداؤد ؒ نے  اس حدیث  کئے ضعیف  ہونے کی طرف اشارہ کردیا ہے۔(ایضا)

 الحسن  بن  ذکوان  مدلس  ہیں اور  اگر سماع کی تصریح  کریں  تو حسن  درجہ کے راوی  ہیں ۔

صحیح  بخاری میں ان کی صرف ایک حدیث ہے ۔دیکھئے  کتاب الرقاق باب   صفۃ  الجنۃ والنار (6566)

صحیح  بخاری  والی روایت  میں الحسن  بن ذکوان  نے  "حدثنا " کہہ کر  سماع کی تصریح کر رکھی ہے اور اس کے  بہت سے  شواہد بھی ہیں ۔( دیکھئے  ہدی  الساری  للحافظ  ابن حجر ص 398)

 عمران بن مسلم  القصیر  نے ان  کی متابعت  تامہ  کر رکھی  ہے ۔( المعجم  الکبیر للطبرانی  ج  18ص 136 ح 284 باختلاف  یسیر)

یعنی یہ حدیث الحسن  بن ذکوان کے  علاوہ  عمران  (صدوق حسن الحدیث ) نے بھی  بیان کی ہے ۔

تہذیب  التہذیب  (ج 2ص 241) وغیرہ  سے معلوم  ہوتا ہے  کہ وہ  عمر بن خالد الوسطی : کذاب   سے  تدلیس  کرتے تھے ۔کذاب  ساے تدلیس کرنے والے کی منعنن  روایت سخت ضعیف  ومردود ہوتی ہے بلکہ موضوع ہونے کا شبہ  بھی رہتا ہے لہذا یہ  سند سخت ضعیف  ہے۔

 3۔ احمد ( بن  يحيي  بن الربيع بن سليمان  البغدادي ) قال  :حدثنا  محمد بن عبد الله  بن بزيع قال: حدثنا عبدالرحمن  بن عثمان ابو بحر البكراوي قال :حدثنا سعيد  بن ابي عروبة  عن عامرالاحول  عن عطاء  عن ابي  هريرة  ۔۔۔الخ  (المعجم  الاوسط  للطبرانی  ج 2ص 164 ح1302 وتحفۃ  الاحوذی ج 1ص 296 مختصراص)

احمد  بن یحیی  کا ذکر  تاریخ  بغداد  (ج  5 ص203) میں ہے ۔ لیکن اس کی توثیق مذکور نہیں لہذا یہ شخص مجہول  الحال ہے،ابوبکر البکر راوی ضعیف  ہے۔ (دیکھئے  التقریب  :3943)

 اسے جمہور محدثین نے  (حافظے  کی وجہ سے) ضعیف  قراردیا ہے۔ سعید بن ابی عروبہ  مدلس  ہیں 'انھیں  حافظ  ذہبی نے مدلس کہا ہے۔

( دیکھئے  الفتح  المبین  فی  تحقیق طبقات المدلسین  ص 39 اور سیر اعلام  النبلاء  للذہبی  ج  2ص 415)

 اس سند  میں سعید  کے اختلاط  والی  علت  بھی ہے لہذا یہ سند ان چار خامیوں  کی وجہ سے ضعیف ہے ۔

4۔ الحسین  بن اسحاق التستری :  ثنا ابو الربيع الزهراني ثنا حفصبن ابي داؤد عن الهيثم  بن  حبيب  عن عون  بن ابي جحيفة  عن ابيه  ّالخ (المعجم الكبير للطبراني  ج22ص 111 ح 283)

المعجم  الاوسط  للطبرانی  (ج 7ص 95 ، 96 ح 6160) اور المعجم  الصغیر (ج  2ص38) میں یہ روایت  حفص بن ابی داؤد : ثناالهيثم  بن حبيب  الصير في عن  علي بن  الاقمر عن ابي جحهفة كی سند سے  مروی ہے۔

حفص بن ابی  دادو الاسدی  الکوفی  القاری  :  متروك  الحديث  مع امامته  في القراة " ہے ۔( تقریب  التہذیب :1405)

ابو  مالک  النخعی  عن علی  بن الاقمر  عن ابي  جحيفة  كی سند سے بھی مروی ہے۔(الکبیر للطبرانی  ج  22ص 133 ح353 کشف  الاستار فی  زوائد البزارج  1ص 286 ح 595)

  ابو مالک  تک  دونوں  سندیں ضعیف  ہیں  اور ابو مالک  النخعی  متروک ہے۔ (دیکھئے  تقریب  التہذیب :8337)

 بزار نے اسے  خطا  قرار دیتے  ہوئے  علی بن الاقمر عن ام عطیہ  کی روایت  کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن  یہ روایت مجھے نہیں ملی ،واللہ اعلم

 خلاصہ  یہ کہ یہ روایت  اپنی تمام اسانید کے ساتھ  ضعیف  ہے  لہذا بعض  لوگوں کا  اس سے استدلال  کرکے رکوع کے بعد  ارسال یدین  سے منع کرنا  صحیح نہیں ہے ۔اگر  یہ روایت صحیح  بھی ہوتی  تو اس سے استدلال صحیح نہیں  ہے کیونکہ  یہاں  سدل  سے  مراد گردن  سے دو کندھوں  کے درمیان ' یہودیوں کی طرح  کپڑا لٹکانا ہے  جیسا کہ محدثین  کرام نے بیان  کیا ہے  اور محدثین کرام  ہی  اپنی روایات  کو سب سے بہتر جانتے ہیں ،

 فائدہ: سیدنا  علی رضی اللہ عنہ  نے لوگوں  کو نماز میں سدل  کرتے  ہوئے دیکھا  تو فرمایا : گویا  یہ یہودی ہیں  جو اپنے  تہوار سے آئے ہیں( مصنف ابن ابی شیبہ  2/ 295 ح 2480 وسندہ صحیح )

 سیدنا  علی رضی اللہ عنہ  نے لوگوں  کو نماز میں  سدل کرتے  ہوئے  دیکھا  تو فرمایا: گو یہ  یہودی  ہیں جو اپنے  تہوار سے آئے ہیں ۔ (ابن ابی شیبہ  2/ 295 ح 2483 وسندہ صحیح )

  ابراہیم  نخعی  ؒ  ( بھی)  نمازمیں( یہو دیوں  کے سدل کی طرح )  کپڑا لٹکانے  کو مکروہ  سمجھتے تھے ۔( ابن ابی شیبہ  2/ 295 ح 2488 وسندہ صحیح )

2۔ ہاتھ کھلے رکھے

 یہ دوسرا موقف  استاذ محترم  ابوالقاسم  محب اللہ الراشدی  ؒ اور جمہور علماء  کا ہے ۔

اس  پر وہ بعض  عمومی  دلائل  اور عمل محدثین  سے استدلال  کرتے ہیں ۔ سیدنا  عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ  سے باسند صحیح نماز میں ارسال ثابت ہے۔( مصنف ابن ابی شیبہ  2/ 295 ح 3950 وسندہ صحیح)

 دونوں طرف استدلال عمومات میں سے ہے  لہذا غیر صریح  ہونے کی وجہ سے  یہ مسئلہ  اجتہادی  ہے لہذا جو شخص حسب  تحقیق جس صورت  میں عمل  کرے گا وہ عنداللہ ماجور ہوگا،(ان شاء اللہ)

امام اہل سنت امام احمد  بن حنبل  ؒ فرماتے ہیں :" ارجوان لا یضیق ذلک  ان شاء اللہ"  میرے خیال  میں اس ( یعنی ہاتھ باندھنا یا چھوڑنا  دونوں ) میں کوئی تنگی نہیں ہے ،ان شاء اللہ ۔ یعنی دونوں  طرح جائز ہے ۔

( مسائل  بن صالح  احمد بن حنبل  ۔ قلمی  صفحہ 90 ومطبوع ج 2ص 205 فقرہ نمبر 776)

 میری تحقیق میں راجح یہی ہے کہ  دونوں  طرح عمل کرنا جائز ہے۔اس مسئلہ میں تشدد نہیں کرنا چاہیے  اور نہ جوابی  رسائل کا سلسلہ شروع کیا جائے ۔هذا عندي والله اعلم بالصواب        ( شہادت فروری 2000ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ374

محدث فتویٰ

تبصرے