سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(145) نماز میں آمین بالجہر

  • 21038
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1635

سوال

(145) نماز میں آمین بالجہر

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں آمین بالجہر کی دلیل پیش کریں؟(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ سری نمازوں میں آمین آہستہ(سراً)کہنی چاہیے ۔جہری نمازوں کی جہری رکعتوں میں تمام صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین اور جمہور تابعین عظام کا مسلک یہ ہے کہ آمین بالجہر کہی جائے۔یہی تحقیق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  ،امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  اور امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ  کی ہے کہ جہری نمازوں میں آمین بالجہر کہنی چاہیے ۔( دیکھئے سنن ترمذی (لصلوٰۃ باب ماجاء فی التامین ح248)

صحیح مسلم کے مؤلف ،امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے اعلان فرمایا:

"قدتواترت الروايات كلها أن النبي صلى الله عليه وسلم جهر بآمين"

اور تمام روایات کے تواتر سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے آمین بالجہر کہی ہے۔(الاول من کتاب التمییز للامام ابی الحسین مسلم بن الحجاج القشیری ص40ح38)

ان متواتر روایات میں سے چند درج ذیل ہیں۔

1۔سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ثابت ہے۔

"أنه صلى خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فجهر بآمين"

"انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے نماز پڑھی پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے آمین بالجہر کہی۔(سنن ابی داؤد الصلوۃ باب التامین دراءالا مام ح 933صحیح)

اسے سفیان ثوری  رحمۃ اللہ علیہ  نے سلمہ بن کہیل سے"ورفع بها صوته" کے الفاظ سے روایت کیا ہےاس کی سند حسن ہے اور متعدد شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔اس کے مقابلے میں شعبہ والی روایت میں سخت اضطراب ہے اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  امام ابو زرعہ  رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور محدثین نے اسے خطاء اور ضعیف قراردیا ہے۔

خود امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے آمین بالجہر بھی مروی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے میری کتاب "مسئلہ آمین بالجہر (ص23تا31دوسرا نسخہ ص35،36)

2۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ:

"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من قراءة أم القرآن رفع صوته بآمين "

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب سورۃ فاتحہ کی قرآءت سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔

ابن خزیمہ1ص287، ج3ص148ح1806،المستدرک للحاکم ج1ص223وصححہ دوافقہ الذہبی الدارقطنی 1/330وقال ھذا اسناد حسن البیہقی وقال حسن صحیح بحوالہ التلخیص الجبیر 236اعلام الموقعین لا بن القیم 2/397وصححہ )

اس کی سند امام زہری رحمۃ اللہ علیہ  تک حسن لذاتہ ہے لیکن یہ سند امام زہری رحمۃ اللہ علیہ  کے عن سے روایت کرنے کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ زہری مدلس تھے۔

3۔سیدنا عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے مقتدی آمین بالجہر کہتے تھے۔(دیکھئے صحیح بخاری مع فتح الباری (ج2ص208قبل حدیث 780)اور مصنف عبدالرازق (2640)

4۔سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب امام کے پیچھے ہوتے تو سورۃ فاتحہ پڑھتے اور لوگوں کی آمین کے ساتھ(مل کر) آمین کہتے اور اسے سنت سمجھتے تھے۔(صحیح ابن خزیمہ ج1ص287ح572)

5۔عکرمہ تابعی  رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت ہے کہ ہماری مسجدوں میں لوگ آمین کہتے تھے حتیٰ کہ لوگوں کے آمین کہنے سے مسجد یں گونج اٹھتی تھیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ 2ص425)

اس کی سند صحیح ہے۔

6۔سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ یہودی لوگ امام کے پیچھے آمین کہنے پر (مسلمانوں سے شدید ) حسد کرتے تھے،

مسند احمد (ج6ص134) واصلہ عندابن ماجہ (ج1ص278ح856)وسندہ صحیح )

یہ روایت اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔

7۔سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ یہودی حضرات مسلمانوں سے جن کاموں پر حسد کرتے ہیں۔ ان میں سے قابل ذکر تین ہیں۔سلام کا جواب دینا صفوں کا قائم کرنا اور فرض نمازوں میں امام کے پیچھے آمین کہنا۔(الاوسط للطبرانی ج5س473،486۔ح4908)

8۔سیدنا انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   جیسی حدیث مروی ہے۔(دیکھئے تاریخ بغداد (11،43)اور المختارہ للضیاءالمقدسی (45/1)

9۔حدیث سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  (ابن ماجہ ج1ص287،ح854،الخلافیات مخطوط صفحہ 52)

10۔امام عطاء بن ابی رباح  رحمۃ اللہ علیہ  (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2ص426)

خلاصہ یہ کہ آمین بالجہر متواتر ہے جبکہ آمین بالسر کی خبر واحد متعدد وجوہ سے ضعیف ہے۔

الف: اس میں اضطراب ہے۔ بعض نے شعبہ سے آمین بالجہر نقل کیا ہے۔

ب:شعبہ کو وہم ہوا ہے۔ج:یہ روایت ثقہ راویوں کے خلاف ہے۔

د:کسی صحابی سے جہری نمازوں میں خفیہ آمین کہنا ثابت نہیں ہے۔(شہادت ستمبر 2000ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ331

محدث فتویٰ

تبصرے