سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(141) فاتحہ خلف الامام کی قوی دلیل

  • 21034
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1353

سوال

(141) فاتحہ خلف الامام کی قوی دلیل

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فاتحہ خلف الامام کی سب سے قوی دلیل کون سی ہے؟(ناصر رشید روالپنڈی )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دلائل دو قسم کے ہوتے ہیں عام اور خاص ۔عام دلائل کے لحاظ سے فاتحہ خلف الامام کی سب سے قوی دلیل وہ حدیث ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  (ح756)وغیرہ نے سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لاصَلاة لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ"

اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۔صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ : 756)اس حدیث کے حکم میں امام ،مقتدی اور منفرد تینوں شامل ہیں جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کی تحقیق ہے۔ اس حدیث کے راوی سیدنا عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل وفاعل تھے۔(دیکھئے کتاب القرآءت للبیہقی ص69،ح 133)

سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں ۔"یہ بالکل صحیح بات ہے کہ حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔ اور ان کی یہی تحقیق اور یہی مسلک و مذہب تھا۔"(احسن الکلام ج2ص142طبع دوم)

یادرہے کہ سیدنا عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی یہ تحقیق و عمل نہ تو قرآن کریم کے مخالف ہے اور نہ صحیح احادیث کے مخالف ہے بلکہ جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  بھی ان کے موافق و موید تھے۔(دیکھئے میری کتاب الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الجہریہ)

خاص دلائل کے لحاظ سے بہت سی احادیث صحیح و حسن ہیں۔ ان میں سے جزء القرآءت للبخاری(ص61غ255)وصحیح ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کی عبیداللہ بن عمرو الرقی عن ایوب السختیانی عن ابی قلابہ التابعی عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  والی روایت از حد قوی ہے بلکہ بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔اس حدیث کے بارے میں امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"احتجّ به البخاري"

اس حدیث کے ساتھ (امام) بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے حجت پکڑی ہے(کتاب القرآءت للبیہقی ص72)

نیز دیکھئے الکواکب الدریہ (ص 19تا 25،دوسرا نسخہ ص40،47)(شہادت ،مئی 2000ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ323

محدث فتویٰ

تبصرے