سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(102) سترے کا حکم

  • 20995
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1062

سوال

(102) سترے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نماز میں سترہ قائم کرنا واجب ہے؟(حافظ شفیق باغ آزاد کشمیر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز میں سترہ کا اہتمام کرنا مستحب ہے۔ وہ احادیث جن میں سترہ کی تائید و حکم یا سترہ کے بغیر نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، استحباب پر محمول ہیں۔

ان احادیث کے امر کے وجوب سے استحباب پر پھیرنے والی وہ دلیل ہے جسے امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی صحیح میں (ج 2ص25 ح 838۔839)سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

"فَمَرَرْنَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ وَهُوَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ، لَيْسَ شَيْءٌ يَسْتُرُهُ، يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ"

"پس ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے سے گزرے آپ عرفات میں فرض نماز پڑھ رہے تھے ۔آپ کے اور ہمارے درمیان کوئی چیز بھی بطور سترہ موجود نہیں تھی۔

صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  کے محقق نے بھی اسے"اسنادہ صحیح"کہا ہے اس کی تائید امام بزار  رحمۃ اللہ علیہ  کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فتح الباری(ج171)میں ذکر کیاہے۔

نیز دیکھئے شرح صحیح بخاری لابن بطال (2/175)البحر الزخار(11/201ح4951) اور نصب الرایہ (2/82)

"الفقہ الاسلامی وادلتہ"(1/752)نامی کتاب میں ہے۔

"وليست واجبة باتفاق الفقهاء، لأن الأمر باتخاذها للندب"

اس پر فقہاٰء (اربعہ)کا اتفاق ہے کہ سترہ واجب نہیں ہے لہٰذا ان کے نزدیک سترہ کا حکم استحباب پر محمول ہے۔

(شہادت دسمبر2000ء ہفت روزہ الاعتصام لاہور 27/جون 1997ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ276

محدث فتویٰ

تبصرے