سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(640) عورت کی سربراہی کا حکم

  • 2098
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4805

سوال

(640) عورت کی سربراہی کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترمی ومکرمی جناب حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امابعد! گزارش ہے کہ روزنامہ جنگ مورخہ ۱۱ دسمبر ۱۹۸۸ء میں ایک خبر شائع ہوئی عبدالعزیز الدالی کے حوالے سے جس کا عنوان تھا ۔ اسلام میں خاتون کے سربراہ مملکت بننے پر کوئی پابندی نہیں ۔ جو کہ مندرجہ ذیل ہے:

اسلام میں خاتون کے سربراہ مملکت بننے پر کوئی پابندی نہیں۔ عبدالعزیز الدالی

’’نئی دہلی (نمائندہ جنگ) کسی مسلمان ملک کی خاتون سربراہ بننے میں اسلام کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔ یہ بات جنوبی یمن کے وزیر خارجہ عبدالعزیز الدالی نے کہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہیے جنہوں نے بینظیر بھٹو کو وزیراعظم بنایا ہے انہوں نے مزید کہا ہے کہ وہ ملکہ سبا پر فخر کرتے ہیں جو اسلام کے دور میں یمن کی ملکہ تھیں اور آج بھی یمن میں انہیں قدر ومنزلت سے دیکھا جاتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے یمن کی ترقی کے لیے بہت کارنامے نمایاں سر انجام دئیے تھے۔‘‘

مذکورہ عبارت پڑھ کر غور کیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی مسلمان ملک کی خاتون سربراہ بننے میں اسلام کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔ اگر واقعی عبدالعزیز الدالی کے مطابق اسلام عورت کی حکمرانی پر پابندی عائد نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق

﴿وَمَنۡ أَظۡلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِ‍َٔايَٰتِ رَبِّهِۦ ثُمَّ أَعۡرَضَ عَنۡهَآۚ إِنَّا مِنَ ٱلۡمُجۡرِمِينَ مُنتَقِمُونَ﴾--السجدة22

اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جس کو اس کے مالک کی آیتیں سنائی جائیں۔ پھر وہ ان پر خیال نہ کرے۔ بے شک ہم گناہ گاروں سے بدلہ لیں گے۔

اسلام اللہ تعالیٰ کو بھی پسند ہے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں :

﴿ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِينٗاۚ﴾--مائدة3

ترجمہ : آج کے دن میں نے مکمل کر دیا تمہارے لیے تمہارے دین کو اور مکمل کر دیا تم پر اپنی نعمت کو اور پسند کیا میں نے تمہارے لیے اسلام کو دین اسلام میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

﴿إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلۡإِسۡلَٰمُۗ﴾--آل عمران 19

جو دین خدا تعالیٰ کو پسند ہے وہ اسلام ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدۡخُلُواْ فِي ٱلسِّلۡمِ كَآفَّةٗ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمۡ عَدُوّٞ مُّبِينٞ﴾--بقرة208

اے ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔  اور اس کے بعد عبدالعزیز الدالی نے مزید یہ کہا کہ (ہمیں عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہیے) اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کے بارے میں ارشاد ربانی کیا ہے ؟

﴿وَمَآ أَكۡثَرُ ٱلنَّاسِ وَلَوۡ حَرَصۡتَ بِمُؤۡمِنِينَ﴾--يوسف103

اگرچہ آپ حرص کریں ، اکثر لوگ مومن نہیں ہیں ۔  جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

﴿وَإِن تُطِعۡ أَكۡثَرَ مَن فِي ٱلۡأَرۡضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَإِنۡ هُمۡ إِلَّا يَخۡرُصُونَ﴾--انعام116

اور اگر تو ان لوگوں کے کہنے پر چلے جو دنیا میں زیادہ ہیں تو وہ تجھ کو خدا کی راہ سے بہکا دیں گے ، یہ لوگ صرف اپنے خیال پر چلتے ہیں اور کچھ نہیں مگر اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا :

﴿وَلَقَدۡ ضَلَّ قَبۡلَهُمۡ أَكۡثَرُ ٱلۡأَوَّلِينَ﴾--صافات71

اور البتہ تحقیق گمراہ ہوئے ان کے پہلے بہت زیادہ پہلوں میں سے ۔  اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿وَقَلِيلٞ مِّنۡ عِبَادِيَ ٱلشَّكُورُ﴾--سبا13

اور تھوڑے ہیں میرے بندوں میں سے شکر گزار ۔ اس کے بعد عبدالعزیز الدالی نے مزید کہا جو کہ مندرجہ ذیل ہے :

’’کہ وہ ملکہ سبا پر فخر کرتے ہیں جو اسلام کے دور میں یمن کی ملکہ تھیں اور آج بھی یمن میں انہیں قدر ومنزلت سے دیکھا جاتا ہے ۔ کیونکہ انہوں نے یمن کی ترقی کے لیے بہت کارنامے نمایاں سر انجام دئیے تھے ۔‘‘

قوم سبا کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بھی ذکر کیا ہے :

﴿إِنِّي وَجَدتُّ ٱمۡرَأَةٗ تَمۡلِكُهُمۡ وَأُوتِيَتۡ مِن كُلِّ شَيۡءٖ وَلَهَا عَرۡشٌ عَظِيمٞ﴾--نمل23

میں نے دیکھا کہ ان کی بادشاہت ایک عورت کر رہی ہے جسے ہر قسم کی چیز سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے اور اس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے۔

﴿وَجَدتُّهَا وَقَوۡمَهَا يَسۡجُدُونَ لِلشَّمۡسِ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ ٱلشَّيۡطَٰنُ أَعۡمَٰلَهُمۡ فَصَدَّهُمۡ عَنِ ٱلسَّبِيلِ فَهُمۡ لَا يَهۡتَدُونَ﴾--نمل24

میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا شیطان نے ان کے کام انہیں بھلے کر کے دکھلا کر صحیح راہ سے روک دیا ہے پس وہ ہدایت پر نہیں آتے ۔ قرآن اجتماعی زندگی میں یہ مقام کس کو دیتا ہے اور کسے نہیں دیتا سورۃ نساء آیت ۳۴میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿ٱلرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بَعۡضَهُمۡ عَلَىٰ بَعۡضٖ وَبِمَآ أَنفَقُواْ مِنۡ أَمۡوَٰلِهِمۡۚ فَٱلصَّٰلِحَٰتُ قَٰنِتَٰتٌ حَٰفِظَٰتٞ لِّلۡغَيۡبِ بِمَا حَفِظَ ٱللَّهُۚ﴾--النساء34

مرد عورتوں پر حاکم ہیں بوجہ اس فضیلت کے جو اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر دی ہے اور بوجہ اس کے کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ۔ پس صالح عورتیں اطاعت شعار اور غیب کی حفاظت کرنے والیاں ہوتی ہیں اللہ کی حفاظت کے تحت۔

اس کے بعد حدیث کی طرف آئیے ۔ یہاں ہم کو نبیﷺ کے یہ واضح ارشادات ملتے ہیں :

«اِذَا کَانَ اُمَرَآئُکُمْ شِرَارَکُمْ اَغْنِيَائُکُمْ بُخَلاَ ئَکُمْ وَاُمُوْرُکُمْ اِلٰی نِسَآئِکُمْ فَبَطْنُ الْاَرْضِ خَيْرٌ مِنْ ظَهْرِهَا»ترمذى كتاب الفتن جلد ثانى

جب تمہارے امراء تمہارے بدترین لوگ ہوں ، اور جب تمہارے دولت مند بخیل ہوں اور جب تمہارے معاملات تمہاری عورتوں کے ہاتھ میں ہوں تو زمین کا پیٹ تمہارے لیے اس کی پیٹھ سے بہتر ہے۔

«عَنْ اَبِیْ بَکْرَةَ لَمَّا بَلَغَ رَسُوْلَ اﷲِr اَنَّ اَهْلَ فَارِسَ مَلَّکُوْا عَلَيْهِمْ بِنْتَ کِسْرٰی قَالَ لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْ اَمْرَهُمْ اِمْرَأَةً»بخارى,احمد,نسائى,ترمذى

ابوبکرہ سے روایت ہے کہ جب نبیﷺ کو خبر پہنچی کہ ایران والوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا بادشاہ بنا لیا ہے تو آپﷺنے فرمایا وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنے معاملات ایک عورت کے سپرد کیے ہوں۔

(نوٹ) روزنامہ جنگ لاہور میں مورخہ ۸۸۔۱۲۔۱۱ کو ایک خبر شائع ہوئی تھی عبدالعزیز الدالی کے حوالے سے بندہ نے پڑھ کر غور کیا اور اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد آیا۔ ﴿فَتَبَیَّنُوْا﴾--الحجرات-  پس تحقیق کر لو ۔ بندہ نے آیات اور احادیث جمع کی ہیں اب بندہ تمام اہل علم حضرات سے درخواست کرتا ہے کہ جو آیات اور احادیث جمع کی ہیں ان کی وضاحت مطلوب ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اور اجر وثواب کے لیے وضاحت کریں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:

شیخنا المکرم مولانا محمد اسماعیل صاحب سلفی رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ  کے صاحبزادے جامع مسجد مکرم ماڈل ٹائون گوجرانوالہ کے خطیب مشہور ومعروف حکیم وطبیب جناب مولانا محمود صاحب  حفظہ اللہ تعالیٰ نے جنوبی یمن کے وزیر خارجہ کے ایک بیان کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں وزیر موصوف نے کہا ’’کسی مسلمان ملک کی خاتون سربراہ بننے میں اسلام پابندی عائد نہیں کرتا ۔ وہ ملکہ سبا پر فخر کرتے ہیں جو اسلام کے دور میں یمن کی ملکہ تھیں۔ ہمیں عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہیے جنہوں نے بینظیر بھٹو کو وزیراعظم بنایا ہے ‘‘۔ وزیر موصوف کا بیان ختم ہوا۔

(1) تمام اہل خرد جانتے ہیں کہ مسلمان جب بحیثیت مسلمان کوئی قیادت یا امارت والا نظام قائم کرتے ہیں تو ان کی غرض وغایت اور مراد صرف اور صرف یہی ہوتی ہے کہ ہمیں فلاح وبہبود حاصل ہو اور ہم کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوں ہم چونکہ مسلمان ہیں اور بحیثیت مسلمان ہی سوچ بچار کر رہے ہیں اس لیے ہم نے دیکھنا ہے جس غرض وغایت اور مقصود ومراد یعنی فلاح وبہبود کی خاطر ہم قیادت وامارت والا نظام بنا رہے ہیں اس فلاح وبہبود کا طریقہ وذریعہ ازروئے اسلام کیا ہے اور ظاہر ہے کہ اسلام کی ترجمانی صرف دو ہی چیزیں کرتی ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور دوسری رسول اللہﷺ کی سنت وحدیث۔اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ فلاح وبہبود کا طریقہ وذریعہ ازروئے کتاب وسنت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری ہی ہے چنانچہ اس سلسلہ میں متعدد آیات کریمہ اور احادیث شریفہ موجود ہیں جنہیں طوالت سے بچتے ہوئے اس جگہ نقل نہیں کیا جا رہا ہے قرآن مجید اور کتب احادیث سے انہیں دیکھا جا سکتا ہے۔اب ہم نے دیکھنا ہے کہ ایک خاتون کو ملک یا جماعت کا سربراہ بنانے کی اللہ تعالیٰ یا اس کے رسولﷺنے اجازت دی ہے یا نہیں ؟ اور ہر کوئی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول اللہﷺنے خاتون کو سربراہ بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں فرمایا :﴿اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ﴾ الخ مرد عورتوں پر قوام وحاکم ہیں اور صحیح بخاری ’’کتاب المغازی۔ باب کتاب النبیﷺ إلی کسری وقیصر‘‘ میں رسول اللہﷺ کا فرمان ہے :﴿لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْ أَمْرَہُمْ اِمْرَأَۃً﴾جن لوگوں نے اپنے امر کا والی کسی عورت کو بنا لیا وہ لوگ ہر گز فلاح وبہبود سے ہمکنار نہیں ہوں گے تو ان نصوص صریحہ کے ہوتے ہوئے وزیر موصوف یا کسی اور کا کہنا ’’کسی مسلمان ملک کی خاتون سربراہ بننے میں اسلام پابندی عائد نہیں کرتا‘‘ شدید قسم کی خطا ہے۔

کسی خاتون کے سربراہ نہ بن سکنے کا یہ مطلب نہیں کہ کسی مرد کو خواہ وہ کیسا ہی ہو سربراہ بنا لیا جائے بلکہ اسلام نے مرد کے سربراہ بننے کے لیے پابندیاں عائد کی ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں البتہ ان تمام پابندیوں کا خلاصہ ذکر کیے دیتا ہوں کہ ہر وہ مرد جو دینی ودنیاوی نظام کو بہ سے بہتر اور بہتر سے بہترین طرز پر چلانے کی صلاحیت وقابلیت سے مالا مال ہو اس مرد کو سربراہ بنایا جائے۔

(2) ملکہ سبا پر وزیر موصوف یا کوئی اور فخر کرتا ہے تو کرے انہیں اس فخر کرنے سے کوئی نہیں روکتا مگر اس فخر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں یہ کہنے کا حق حاصل ہو گیا کہ ’’وہ اسلام کے دور میں یمن کی ملکہ تھیں‘‘ قرآن مجید نے ملکہ سبا کا قصہ ذکر کیا ہے اس میں ملکہ سبا کے سلیمان  رضی اللہ عنہ پر ایمان لانے سے پہلے ملکہ سبا ہونے کا تذکرہ ہے سلیمان رضی اللہ عنہ پر ایمان لانے کے بعد بھی وہ سبا کی ملکہ رہیں یا نہ اس سلسلہ میں کتاب وسنت خاموش ہیں اگر بالفرض ان کے سلیمان رضی اللہ عنہ پر ایمان لانے کے بعد بھی سبا کی ملکہ رہنے کا ثبوت مل جائے تو اس کو بطور حجت ودلیل پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ سلیمان رضی اللہ عنہ کی شریعت ہے اور ہم سیدنا خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے پابند ہیں جس کی اوپر وضاحت کر دی گئی ہے کہ از روئے کتاب وسنت عورت سربراہ نہیں بن سکتی۔

اسی طرح رسول اللہﷺ کے بعد اگر کوئی خاتون کسی ملک یا جماعت کی سربراہ بنی تو اس خاتون نے خطا کی اور اس کو سربراہ بنانے اور ماننے والوں نے بھی خطا کی کیونکہ خاتون کی سربراہی کی اسلام نے اجازت نہیں دی اور معلوم ہے کسی مرد یا عورت کے درست قول یا فعل کو حجت ودلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا چہ جائیکہ کسی مرد یا عورت کے نادرست قول یا فعل کو حجت ودلیل کے طور پر پیش کیا جائے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اثبات اسلام کی خاطر حجت ودلیل صرف اور صرف کتاب وسنت ہی ہے نہ کہ امتیوں کے اقوال وافعال۔

(3) رہا عوام کی رائے کے احترام والا معاملہ تو اس سلسلہ میں معلوم ہونا چاہیے کہ بے نظیر کی سربراہی عوام کی رائے نہیں یہ تو اس مروجہ جمہوریت کا کرشمہ ہے جس جمہوریت کے ذریعہ اقلیت کو اکثریت پر مسلط کیا جاتا ہے چند منٹ کے لیے ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ عوام کی رائے ہے مگر یہ رائے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ کے احکام کے برعکس جا  رہی ہے اب وزیر موصوف یا ان کا کوئی اور ہمنوا مسلمان ہونے کے ناطے سے بتائے احترام اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ کے احکام کا کیا جائے یا پھر ان عوام کی رائے کا کیا جائے جن عوام کو وزیر موصوف ایسے لوگ کالانعام گردانتے ہیں؟ پھر پاکستانی قوم کو عوام کی رائے کا احترام کرانے کا سبق اپنے ملک میں بھی تو عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہیے جب کہ ان کا اپنا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے ملک کے اندر یا باہر تو اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ کے احکام کا احترام کرتے ہیں اور نہ ہی عوام کی رائے کا ﴿أَتَامُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُم﴾

صرف عورت کی سربراہی والا مسئلہ ہی نہیں جتنے بھی امور ملک کے اندر یا باہر کتاب وسنت اور اسلام کے منافی چل رہے ہیں ہم ان سب کو غلط سمجھتے ہیں اور مقدور بھر ان کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اگر ہم کسی وجہ سے ان کی اصلاح نہیں کر سکتے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ ان کے جواز پر مہر تصدیق وتائید ثبت کر دی جائے یا انہیں برضا ورغبت برداشت کر لینے کا سبق دینا شروع کر دیا جائے جو حلقے اس ڈگر پر چل رہے ہیں دراصل وہ بھی اسلامی نظام کے نفاذ میں ایک قسم کی رکاوٹ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں کتاب وسنت پر چلنے والے مومن بنائے اور پوری دنیا میں اسلام کا علم بلند کرنے کی توفیق عطا فرمادے۔ آمین یا رب العالمین

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

جہاد وامارت کے مسائل ج1ص 456

محدث فتویٰ

تبصرے