سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(85) فجر کی دو اذانیں اور مسئلہ تثویب

  • 20978
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1659

سوال

(85) فجر کی دو اذانیں اور مسئلہ تثویب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(الف) بعض علماء کے نزدیک فجر کی دو اذانیں ہیں،ایک صبح صادق سے کچھ دیر قبل اور دوسری طلوع صبح صادق پر۔

ب۔پہلی اذان میں تثویب(الصلوٰۃ من النوم) کہاجائے۔

ج۔دونوں کے درمیان  وقفہ تھوڑا(تقریباً دس منٹ) ہو۔کیایہ باتیں مسنون وجائز ہیں؟حقیقی مسلک سے آگاہ فرمائیں۔اس مسلک کے علماء میں:

1۔البانی بحوالہ تمام المنہ تخریج وتعلیق فقہ السنہ اور الارواء(صحیح ابی داود 2/415ح516)

2۔شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی بحوالہ ہفت روزہ الاعتصام لاہور(مجریہ 98۔8۔14)

3۔مولانا محمد منیر سیالکوٹی بحوالہ فقہ الصلوٰۃ (جلد دوم صفحہ نمبر 152تا156)

4۔حافظ عبدالرؤف سندھو بحوالہ القول المقبول فی تخریج وتعلیق صلوٰۃ الرسول(طبع1997ء) شامل ہیں۔ (محمد صدیق سلفی،ایبٹ آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فجر کی دواذانیں ہیں:

ایک طلوع فجر کے بعد اور دوسری اقامتِ صلوٰۃ کے وقت جسے اقامت بھی کہتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

" بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ"

ہردو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔(صحیح بخاری:624صحیح مسلم:838)

ایک تیسری اذان ہے جو طلوع فجر سے پہلے دی جاتی ہے،اسے رات کی اذان کہتے ہیں،جیسا کہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:

"أَنَّ بِلالا كَانَ يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ"

"بے شک رات کی اذان بلال دیتے ہیں۔(صحیح بخاری:622صحیح مسلم 1092)

جن احادیث میں آیا ہے کہ "الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ" کے الفاظ صبح کی پہلی اذان میں ہیں،ان ان کامطلب یہ ہے کہ طلوع فجر کے بعد صبح کی دو اذانیں(اذان واقامت) میں سے  پہلی اذان(یعنی اذانِ عرفی) میں یہ الفاظ کہے جائیں گے نہ کہ اقامت میں۔

رہی رات کی اذان جو صبح سے پہلے دی جاتی ہے تواس میں"الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ" کے الفاظ ثابت نہیں ہیں۔صحیح ابن خذیمہ(ج1 ص 202) سنن الدارقطنی(ج1 س 243) اور السنن الکبریٰ للبیہقی(ج1ص 423)میں صحیح سند کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ:

"إِذَا قالَ المُؤَذٍّنُ في أَذَانِ الفَجْرِ: حَيَّ عَلَى الفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الفَلاحِ، فَلْيَقُل: الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ"

"سنت میں سے یہ ہے کہ جب مؤذن صبح کی اذان میں "حَيَّ عَلَى الفَلاحِ" کہے تو "الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ" کہے۔

صحابی کا من السنۃ کہنا،مرفوع حدیث کہلاتاہے جیسا کہ اصول حدیث میں مقرر ہے۔سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فجر کی اذان میں "الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ"کہتے تھے۔دیکھئے سنن ابی داود(504 وسندہ صحیح)

خلاصہ یہ کہ طلوع فجر کے بعد صبح کی اذان اول میں "الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ" کے الفاظ کہنے چاہییں ۔طلوع فجر سے پہلے تہجد والی اذان میں یہ الفاظ قطعاً ثابت نہیں ہیں۔

اس سلسلے میں شیخ امین اللہ البشاوری حفظہ اللہ نے لکھاہے:

"اور بے شک اس مسئلے میں شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ضعیف ہے۔(فتاویٰ الدین الخالص ج3 ص 225)

شیخ ثناء اللہ مدنی،شیخ محمد منیر قمر سیالکوٹی اور حافظ عبدالرؤف سندھو حفظہم اللہ نے اس مسئلےمیں(شاید) بغیر تحقیق کے شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی پیروی کی ہے۔واللہ اعلم(شہادت،اکتوبر 2000ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الاذان۔صفحہ247

محدث فتویٰ

تبصرے