السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شطرنج جو عام ہو گئی ہے اس کا کیا حکم ہے ؟ شرعی دلائل سے مفصل جواب ہو تاکہ ہر قسم کا تردّد ختم ہو جائے جو کہ ان وجوہ کی بناء پر پیدا ہو گیا ہے یا کہ عام مدرسین میں سے بعض سے جب یہ پوچھا گیا کہ شطرنج کا کیا حکم ہے تو انہوں نے یہ بتایا کہ اگر شرط لگا کر کھیلا جائے تو حرام ہے اگر ویسے وقت گزارنے کے لیے کھیلا جائے تو ہم زیادہ شدت کرتے ہوئے یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ مکروہ ہے پھر جب ان کے بتانے پر شرح صحیح مسلم اور عون معبود اور مشکوٰۃ کے حاشیہ بحوالہ مرقاۃ پڑھا تو اس میں بھی علماء کے مذاہب پڑھ کر تردّد اسی طرح برقرار رہا تو اس تردّد کو ختم کرنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کر رہا ہوں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شطرنج ناجائز ہے کیونکہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں :
«کُلُّ شَيْئٍ يَلْهُوْ بِهِ الرَّجُلُ بَاطِلٌ اِلاَّ رَمْیَ الرَّجُلِ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيْبَهُ فَرَسَهُ وَمُلاَعَبَتَهُ اَهْلَهُ فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ»سنن دارمى ج2 ص124 حديث 2410
’’ہر وہ چیز جس کے ساتھ آدمی کھیلے وہ باطل ہے مگر اپنی کمان کے ساتھ تیر اندازی کرنا اپنے گھوڑے کو ادب سکھانا اور اپنی بیوی سے کھیلنا یہ چیزیں حق ہیں‘‘ محشی سید عبداللہ ہاشم یمانی لکھتے ہیں ’’رواہ ایضا احمد والاربعۃ وابن الجارود وابن حبان والحاکم وصححہ واقرہ الذہبی ۱۲۴/۲۔‘‘
نیز رسول اللہﷺ فرماتے ہیں :
«کُلُّ شَيْئٍ لَيْسَ مِنْ ذِکْرِ اﷲِ عَزَّوَجَلَّ فَهُوَ (لَغْوٌوَّ) لَهْوٌ وَسَهْوٌ اِلاَّ اَرْبَعَ خِصَالٍ مَشْیَ الرَّجُلِ بَيْنَ الْغَرَضَيْنِ وَتَادِيْبَهُ فَرَسَهُ وَمُلاَعَبَتَهُ اَهْلَهُ وَتَعَلُّمَ السَّبَاحَةِ»
’’ہر وہ چیز جو اللہ عزوجل کے ذکر کے علاوہ ہے وہ لغو اور لہو اور سہو ہے مگر چار چیزیں دو نشانوں کے درمیان آدمی کا چلنا اور اپنے گھوڑے کو ادب سکھانا اور اپنی بیوی سے کھیلنا اور تیراکی سیکھنا‘‘
«اخرجه النسائی فی کتاب عشرة النساء (ق ۷۴/۲) والزيادة له والطبرانی فی المعجم الکبير (۸۹/۱/۲) وابو نعيم فی احاديث ابی القاسم الاصم (ق ۱۷/۱۷) من طريقين عن محمد بن سلمة عن ابی عبدالرحيم عن عبدالوهاب بن بخت عن عطاء بن ابی رباح قال رايت جابر بِن عَبْدِ اﷲِ وَجَابِر بْنَ عُمَيْرٍ الْاَنْصَارِيَيْنِ يَرْمِيَانِ فَحَلَّ اَحَدُهُمَا فَجَلَسَ فَقَالَ لَهُ الْآخَرُ کَسَلْتَ ؟ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ فَذَکَرَهُ »
’’عطاء سے ہے انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما اور جابر بن عمیر رضی اللہ عنہ انصاری کو دیکھا کہ وہ دونوں تیر اندازی کر رہے ہیں پس ان میں سے ایک تھک گیا اور بیٹھ گیا تو دوسرے نے کہا کہ تو سست پڑ گیا ہے میں نے رسول اللہﷺ کو سنا اور پھر گزشتہ حدیث ذکر کی‘‘
«قلت وهذا سند صحيح رجاله ثقات رجال مسلم غير عبدالوهاب بن بخت وهو ثقه اتفاقا الخ »سلسلة الاحاديث الصحيحة ج4
حافظ ابن حزم نے ان احادیث پر چند اعتراضات کیے ہیں جو ناقابل التفات ہیں۔
تو ان احادیث سے ثابت ہوا شطرنج بھی جائز نہیں کیونکہ نہ تو یہ ذکر اللہ ہے اور نہ ہی اس کی اباحت کسی آیت یا حدیث سے ثابت ہے اور مذکورہ بالا احادیث کے عموم سے اس شطرنج کا ناجائز ہونا ہویدا ہے یاد رہے دوسری روایت میں لغو ولہو وسہو سے مراد باطل ہے جیسا کہ پہلی حدیث سے واضح ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب