سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58) غسل جنابت میں سر پر پانی ڈالنا

  • 20951
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1969

سوال

(58) غسل جنابت میں سر پر پانی ڈالنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صحیح بخاری کی ایک حدیث میں آتا ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   صدیقہ نے دو مردوں کے سامنے غسل کیا تھا۔شیعہ اور منکرین حدیث یہ حدیث  بیان کرکے صحیح بخاری پر اعتراض کرتے ہیں،آپ سے درخواست ہے کہ ہمیں اس حدیث کا مفہوم سمجھائیں۔جزاکم اللہ خیرا (حافظ اسد علی،خیر باڑہ غازی ضلع ہری پور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ:

"حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ -[60]-، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، يَقُولُ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَخُو عَائِشَةَ عَلَى عَائِشَةَ، فَسَأَلَهَا أَخُوهَا عَنْ غُسْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَدَعَتْ بِإِنَاءٍ نَحْوًا مِنْ صَاعٍ، فَاغْتَسَلَتْ، وَأَفَاضَتْ عَلَى رَأْسِهَا، وَبَيْنَنَا وَبَيْنَهَا حِجَابٌ"

"ابوسلمہ(بن عبدالرحمن) فرماتے ہیں کہ:میں اور عائشہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ) کا(رضاعی) بھائی(ہم دونوں) عائشہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ) کے پاس گئے،آپ کے(رضاعی) بھائی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے(سر کے ) غسل کے بارے میں پوچھا(کہ یہ کیسا تھا؟) توانھوں(عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ) نے صاع(ڈھائی کلو) کے برابر(پانی کا) ایک برتن منگوایا،پھر انہوں نے غسل کیا  اور اپنے سر پر پانی بہایا،ہمارے اور ان کے درمیان پردہ تھا۔

(صحیح بخاری :کتاب الغسل باب الغسل بالصاع ونحوہ ،ح251)اس حدیث کو امام مسلم(42/320،دارالسلام:728)نسائی(الصغری 1/127ح228)

احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ (المسند،6/143ح25620)ابونعیم الاصبہانی(المستخرج علی صحیح مسلم 1/370ض720) ابوعوانہ(المسند المستخرج ج1/295،296)اور بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ (السنن الکبری :1/195) نے شعبہ(بن الحجاج) کی سند سے مختصراً ومطولاً نحو المعنی بیان کیاہے ۔اس روایت کے مفہوم میں درج ذیل باتیں اہم ہیں:

1۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے دور میں اس بات پر شدید اختلاف ہوگیا تھا کہ غسل جنابت کرتے وقت عورت اپنے سر کے بال کھولے گی یا نہیں،اور یہ کہ غسل کے لیے کتنا پانی کافی ہے،عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عورتوں کو  حکم دیتے تھے کہ غسل کرتے وقت اپنے سر کے بال کھول کر غسل کریں۔اس پر تعجب کرتے ہوئے امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے فرمایا:

"يَا عَجَبًا لِابْنِ عَمْرٍو هَذَا يَأْمُرُ النِّسَاءَ إِذَا اغْتَسَلْنَ أَنْ يَنْقُضْنَ رُءُوسَهُنَّ، أَفَلَا يَأْمُرُهُنَّ أَنْ يَحْلِقْنَ رُءُوسَهُنَّ؟"

"ابن عمرو پر تعجب ہے کہ وہ عورتوں کو حکم دیتے ہیں کہ غسل کرتے وقت اپنے سر کے بال کھول دیں کیا وہ انھیں یہ حکم نہیں دے دیتے کہ وہ اپنے سر کے بال منڈواہی دیں؟(صحیح مسلم:59/331،دارالسلام:747)

2۔سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے رد کے لیے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے عملاً سر پر پانی  ڈال کر سمجھایا کہ بال کھولنا ضروری نہیں ہے۔

3۔محدث ابوعوانہ الاسفرائنی(متوفی 316ھ) نے اس حدیث پر درج ذیل باب باندھا ہے:

"باب بيان صفة الأواني التي كان يغتسل منها رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وصفة غسل رأسه من الجنابة دون سائر جسده"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے غسل والے برتنوں کا بیان ،اور غسل جنابت میں ،باقی سارے جسم کو چھوڑ کر(صرف) سردھونے کی صفت کا بیان۔(صحیح ابوعوانہ 1/294)

محدث کبیر کی اس تبویب سے معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے صرف سر دھوکر دکھایا تھا،باقی جسم دھو کر نہیں دکھایا تھا۔

4۔صحیح مسلم والی روایت میں آیا ہے:

"فأفرغت على رأسها ثلاثاً"

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے ا پنے سر پر تین دفعہ(بال کھولے بغیر ہی) پانی بہایا تھا۔(42/320) باقی جسم کے غسل کا کوئی ذکر اس روایت میں نہیں ہے۔

5۔صحیح بخاری(251) اور صحیح مسلم(320) میں آیا ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اور شاگردوں کے درمیان(موٹا) پردہ(حجاب ،ستر) تھا۔ایک صحیح حدیث میں آیاہے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  غسل کررہے تھے، "وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ " اور آپ کی  بیٹی  فاطمہ نے ایک کپڑے کے ذریعے سے آپ کے لیے پردہ کررکھا تھا۔

(موطا امام مالک 1/152 ح356 بتحقیقی وصحیح البخاری :357 صحیح مسلم:82/236 بعد ح719)

یہ ظاہر ہے کہ پردے کے پیچھے نظر آنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا،ورنہ پھر پردے کا کیا مقصد ہے؟

6۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے رضاعی بھائی عبداللہ بن یزید البصری تھے۔(ارشاد الساری للقسطلانی ج1،ص 317)

یاکثیر بن عبیدالکوفی تھے۔(فتح الباری 1/365)

ابو سلمہ بن عبدالرحمان بن عوف،سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے رضاعی بھانجے تھے۔

(فتح الباری 1/365)

معلوم ہوا کہ یہ دونوں شاگرد ،غیر مرد نہیں بلکہ محرم تھے، اسلام میں محرم سے سر،چہرے اور ہاتھوں کاکوئی پردہ نہیں ہے۔

7۔عبدالرحمان دیوبندی لکھتے ہیں؛"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی خدمت میں حاضر ہونے والے یہ دونوں محرم تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے ان کے سامنے پردہ ڈال کر غسل کیا اور دونوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا سر اور  اوپر کا بدن دیکھا جو محرم کو دیکھنا درست ہے لیکن جسم کے باقی اعضاء جن کا مستور رکھنا محرم سے بھی ضروری ہے وہ پردہ میں تھے۔"

(فضل الباری ج2ص 428 از افادات شبیر احمد عثمانی  دیوبندی)

8۔غلام رسول سعیدی بریلوی لکھتے ہیں:"اس حدیث پر منکرین حدیث اعتراض کرتے ہیں کہ ان احادیث کو ماننے سے لازم آتا ہے کہ اجنبی مرد  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے سوال کرتے تھے اور وہ ان کو غسل کرکے دکھا دیتی تھیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مرد اجنبی نہ تھے۔ان میں سے ابو سلمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے رضاعی بھتیجے تھے اور دوسرے عبداللہ بن یزید آپ کے رضائی بھائی تھے۔غرض دونوں محرم تھے،آپ نے حجاب کی اوٹ میں غسل کیا اور ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ازواج مطہرات کپڑوں کے ساتھ غسل کرتی تھیں اور اس سے آپ کا مقصد یہ تھاکہ ان کو شرح صدر ہوجائے کہ اتنی مقدار پانی غسل کے لیے کافی ہوتا ہے ۔علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں:قاضی عیاض نے کہا:اس حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ ان دونوں نے سر اور جسم کے اس بالائی حصہ میں غسل کا عمل دیکھا جس کو دیکھنا محرم کے لیے جائز ہے اور اگر انھوں نے اس عمل کامشاہدہ نہ کیا ہوتا توحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے پانی منگانے اور ان کی موجودگی میں غسل کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے ستر کاانتظام ،سر اور چہرے کے نچلے حصے کے لیے کیاتھا جس کو دیکھنا محرم کے لیے جائز نہیں ہے" (شرح صحیح مسلم ج1ص 1019،1029)

خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں صرف یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ غسل میں،سر کے بال کھولے بغیر ہی سر پر تین دفعہ پانی ڈالنا چاہیے،اس حدیث کا باقی جسم کے غسل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔وما علینا الا البلاغ (الحدیث:2)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ209

محدث فتویٰ

تبصرے