سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(50) کیاچاروں امام برحق ہیں؟

  • 20943
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-01
  • مشاہدات : 2241

سوال

(50) کیاچاروں امام برحق ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ کہتے ہیں کہ چارامام برحق ہیں مگر تقلید صرف ایک کی کرتے ہیں۔قرآن وحدیث  سے جواب دیں کہ امام کس  طرح برحق ہیں اور اُن کو ماننا کس حد تک جائز ہے؟ (حاجی نذیر خان،دامان حضرو)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل اسلام میں ہزاروں لاکھوں امام گزرے ہیں مثلاً تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  ،تمام صحیح العقیدہ ثقہ تابعین  رحمۃ اللہ علیہ  وتبع تابعین  رحمۃ اللہ علیہ  اور دیگر ائمہ عظام رحمۃ اللہ علیہ ۔رحمہم اللہ اجمعین۔

اس وقت دنیا میں آل تقلید کے کئی گروہوں میں سے دو بڑے گروہ ہیں:

اول:مذاہب اربعہ میں سے صرف ایک مذہب کی تقلید کرنے والے :یہ لوگ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  ،شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ   کو چار امام کہتے ہیں۔

دوم: شیعہ یعنی روافض:یہ اہل بیت کے بارہ اماموں کو امام برحق اور معصوم مانتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ اہل سنت کی طرف منسوب تقلیدی مذاہب والے لوگوں کے  نزدیک چار اماموں سے مراد مالک بن انس المدنی،ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی الکابلی محمد بن ادریس الشافعی الہاشمی اور احمد بن حنبل الشیبانی البغدادی  رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔

مذکورہ چار اماموں کو برحق ماننے کے دو معنی ہوسکتے ہیں:

1:یہ چاروں حدیث اور فقہ کے بڑے امام تھے۔

عرض ہے کہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں جمہور سلف صالحین کا اختلاف ہے ،جسکی تفصیل التاریخ الکبیر للبخاری،الکنیٰ للامام مسلم،الضعفاء للنسائی ،الکامل لابن عدی ،الضعفاءللعقیلی،المجروحین لابن حبان اور میری کتاب"الاسانید الصحیحہ فی اخبار الامام ابی حنیفہ " میں ہے۔

پانچویں صدی ہجری سے لےکر بعد والے زمانوں میں عام اہل حدیث علماء(محدثین) کے نزدیک امام ابوحنیفہ فقہ کے ایک مشہور امام تھے اور یہی راجح ہے۔

حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا:"فقيه مشهور"یعنی امام ابوحنیفہ مشہور فقیہ تھے۔(دیکھئے تقریب التہذیب :7153)

امام یزید بن ہارون الواسطی(متوفی 206ھ)  رحمۃ اللہ علیہ  نےفرمایا:

"أدركت الناس، فما رأيت أحدًا أعقل ولا أفضل ولا أورع من أبي حنيفة"

"میں نے(بہت سے) لوگوں کو دیکھا ہے لیکن ابوحنیفہ سے زیادہ عقل والا،افضل اور نیک کوئی بھی نہیں دیکھا۔(تاریخ بغداد ج13ص 364 وسندہ صحیح)

سنن ابی داود کے مصنف امام ابوداود سجستانی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"رحم الله أبا حنيفة كان إماماً، رحم الله مالكاً كان إماماً، رحم الله الشافعي كان إماماً"

مالک(بن انس  ) پر اللہ رحم کرے۔شافعی پر اللہ  رحم کرے وہ امام تھے،ابوحنیفہ پر اللہ رحم کرے وہ امام تھے۔(الانتقاء لابن عبدالبرص 32 وسندہ صحیح الاسانید الصحیحہ ص 82)

ان کے علاوہ حکم بن ہشام التقفی ،قاضی عبداللہ بن شبرمہ،شقیق البلخی ،عبدالرزاق بن ہمام صاحب المصنف،حافظ ابن عبدالبر اور حافظ ذہبی وغیرہم سے امام ابوحنیفہ کی تعریف وثنا ثابت ہے۔

تنبیہ:۔

حدیث میں ثقہ ہونا یانہ ہونا،حافظے کا قوی ہونا یا نہ ہونا یہ علیحدہ مسئلہ ہے جس کی مفصل تحقیق"الاسانید الصحیحہ"میں مرقوم ہے بطور خلاصہ عرض ہے کہ جمہور محدثین نے (جن کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے) امام صاحب پر حافظے وغیرہ کی وجہ سے جرح کی ہے۔

ماہنامہ الحدیث حضرو،وغیرہ میں ہم نے اپنامنہج بار بار واضح کردیا ہے کہ اگر محدثین کرام کے درمیان کسی راوی کے بارے میں جرح وتعدیل کا اختلاف ہوتو ہمارے نزدیک،تطبیق نہ ہونے کی صورت میں ہمیشہ جمہور محدثین کوترجیح حاصل ہوتی ہے۔

باقی تینوں امام حدیث میں ثقہ اور فقہ میں امام تھے۔رحمہم اللہ اجمعین۔

2۔اگر چار امام برحق ہونے کایہ مطلب ہے کہ لوگوں پر ان چاروں میں سے صرف ایک امام کی تقلید واجب یاجائز ہے ،تو یہ مطلب کئی وجہ سےباطل ہے:

1۔عربی لغت میں"بے سوچے سمجھے یا بے دلیل پیروی"کوتقلید کہتے ہیں۔دیکھئے القاموس الوحید(ص 1346)اور میری کتاب؛"دین میں تقلید کامسئلہ"ص 7 بے دلیل پیروی قرآن مجید کی رُوسے ممنوع ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَلا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ"

"اور جس کا تجھے علم نہ ہو،اُس کی پیروی نہ کر"(سورہ بنی اسرائیل:36)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ تقلید نہیں کرنی چاہیے۔

نیز دیکھئے المستصفیٰ من علم الاصول للغزالی(2/389) اعلام الموقعین لابن القیم(2/188) اور الرد علی من اخلد الارض للسیوطی(ص 125،130)

2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی کسی حدیث میں ائمہ اربعہ میں سے صرف ایک امام کی تقلید کاکوئی ثبوت موجود نہیں ہےلہذا مروجہ تقلید بدعت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(صحیح مسلم :868 دارالسلام :2005)

3۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے مروجہ تقلید ثابت نہیں  بلکہ بعض صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے صراحتاً  تقلید کی ممانعت ثابت ہے۔مثلاً سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا :دین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو۔۔۔الخ

(السنن الکبریٰ للبیہقی 2/10 وسندہ صحیح دین میں تقلید کامسئلہ ص 35)

سیدنا معاذ بن جبل  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نےفرمایا:رہا عالم کا غلطی کا مسئلہ تو اگر وہ سیدھے راستے پر بھی ہوتو اپنے دین میں اُس کی تقلید نہ کرو۔الخ

(کتاب الذہد للامام وکیع بن الجراح ج1ص 299،300 ح71 وسندہ حسن،دین میں تقلید کامسئلہ ص 36)

4۔اس پر اجماع ہے کہ مروجہ تقلید ناجائز ہے۔

دیکھئے النبذۃ الکافیۃ فی احکام اصول الدین لابن حزم(ص 71) الرد علیٰ من اخلد الی الارض للسیوطی(ص131،132) اور دین میں تقلید کا مسئلہ(ص34،35)

5۔تابعین کرام رحمۃ اللہ علیہ  میں سے کسی سے بھی مروجہ تقلید ثابت نہیں بلکہ ممانعت ثابت ہے۔مثلاً امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ  نےفرمایا:یہ لوگ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی جو حدیث بتائیں تواسے پکڑلو اور جو بات وہ اپنی رائے سے  کہیں،اُسے کوڑے کرکٹ پر پھینک دو۔(مسند الدارمی 1/67 ح206 وسندہ صحیح)

حکم بن عتیبہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:لوگوں میں سے ہر آدمی کی بات آپ لے بھی سکتے ہیں اور ردبھی کرسکتے ہیں سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے(یعنی آپ کی ہر بات لینا فرض ہے)(الاحکام لابن حزم 6/293 وسندہ صحیح)

ابراہیم نخعی  رحمۃ اللہ علیہ  کے سامنے کسی نے سعید بن جبیر  رحمۃ اللہ علیہ  کاقول پیش کیا تو انھوں نے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث کے مقابلے میں تم سعید بن جبیر کے قول کوکیا کرو گے؟( الاحکام لابن حزم 6/293وسندہ صحیح)

6۔لوگوں کے مقرر کردہ ان چاروں اماموں سے بھی مروجہ تقلید کاجوازوجوب ثابت نہیں بلکہ امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"فلا تقلدوني"اور تم میری تقلید نہ کرو۔(آداب الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم ص 51 وسندہ حسن دین میں تقلید کا مسئلہ ص38)

مزید عرض ہے کہ امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی اوردوسروں کی تقلید سے منع فرمایاتھا۔دیکھئے مختصر المزنی(ص1)

امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:اپنے دین میں تُو ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کر۔(مسائل ابی داود ص 277)

بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ "یہ ممانعت صرف مجتہدین کے لیے ہے"بے دلیل ہونے کیوجہ سے باطل اور مردود ہے۔

7۔امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:اے یعقوب(ابویوسف)!تیری خرابی ہو،میری  ہر بات نہ لکھاکر،میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے ۔کل دوسری رائے ہوتی ہےتو پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔

(تاریخ یحییٰ بن معین ،روایۃ الدوری 2/607 ت 2461 وسندہ صحیح،دین میں تقلید کامسئلہ ص  39)

مشہور ثقہ راوی قاضی حفص بن غیاث النخعی الکوفی(متوفی 194ھ) نے فرمایا:

"كُنْتُ أَجْلِسُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ فَأَسْمَعُهُ يُفْتِي فِي الْمَسْأَلَةِ الْوَاحِدَةِ بِخَمْسَةِ أَقَاوِيلَ فِي الْيَوْمِ الْوَاحِدِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ تَرَكْتُهُ وَأَقْبَلْتُ عَلَى الْحَدِيثِ"

میں ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے پاس بیٹھتا تو ایک دن میں ہی انھیں ایک مسئلے کے بارے میں پانچ اقوال کہتے ہوئے سنتا ،جب میں نے یہ دیکھاتو انھیں ترک کردیا۔(یعنی چھوڑدیا)اور حدیث (پڑھنے) کی طرف متوجہ ہوگیا۔(کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  :316 وسندہ صحیح)

حفص بن  غیاث سے اس روایت کے راوی عمر بن حفص بن غیاث ثقہ تھے۔دیکھئےکتاب الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم (6/103ت 544 نقلہ عن ابیہ ابی حاتم الرازی قال:کوفی ثقہ)اُن پر جرح مردود ہے۔

عمر بن حفص کے شاگرد ابراہیم بن سعید الجوہری ابواسحاق ثقہ ثبت تھے۔دیکھئے تاریخ بغداد(6/93ت3127) اور الاسانید الصحیحہ (ص 14)اُن پر ابن خراش رافضی کی جرح مردود ہے۔

ابراہیم الجوہری  رحمۃ اللہ علیہ اس روایت میں منفرد نہیں بلکہ احمد بن یحییٰ بن عثمان نے اُن کی متابعت تامہ کررکھی ہے۔

دیکھئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی(ج2 ص 789)

اگر احمد بن یحییٰ بن عثمان کاذکر کاتب کی غلطی نہیں تو عرض ہے کہ یعقوب بن سفیان سے مروی ہے کہ میں نے ہزار اور زیادہ اساتذہ سے حدیث لکھی ہے اور سارے ثقہ تھے۔الخ

(تہذیب الکمال ج1 ص 46 مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر اختصار ابن منظور 3/106 ترجمہ احمد بن صالح المصری)

تاریخ دمشق کا مذکورہ ترجمہ نسخہ مطبوعہ میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس قول کی سند نہیں مل سکی اور یہ قول اختصار کے ساتھ تاریخ بغداد(4/199،200 وسندہ صحیح) وغیرہ میں موجودہے۔واللہ اعلم نیز دیکھئے التنکیل لمافی تانیب الکوثری من الاباطیل (1/24)

5۔بعد کے علماء نے بھی مروجہ تقلید سے منع فرمایا ہے مثلاً امام ابومحمد القاسم بن محمد بن القاسم القرطبی  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 276ھ) نے مقلدین کے رد میں ایک کتاب لکھی ہے۔دیکھئے سیر اعلام النبلا(13 339ت150) اور دین میں تقلید کامسئلہ(ص39)

حافظ ابن حزم نے کہا:اور تقلید حرام ہے۔(النبذۃ الکافیہ فی احکام اصول الدین ص 70)

عینی حنفی(!) نے کہا:پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کاارتکاب کرتا ہے اور ہر چیز کی مصیبت تقلید کی وجہ سے ہے۔(البنایہ شرح الہدایہ ج1ص 3179

9۔دین اسلام میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کی تقلید کرنے والے پر امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کی تقلید حرام ہے۔

10۔مروجہ  تقلید کی وجہ سے اُمت میں بڑا انتشاراور اختلاف ہوا ہے۔

مثلاًدیکھئے الفوائد البہیہ(ص152،153) میزان الاعتدال(4/52) فتاویٰ البزازیہ (4/112) اور دین میں تقلید کامسئلہ(89،90)

مزید تفصیل کے  لیے اعلام الموقعین وغیرہ بہترین کتابوں کا مطالعہ کرنا مفید ہے۔

درج بالا جواب کاخلاصہ یہ ہے کہ فقیہ ہونے کے لحاظ سے چاروں امام اور دوسرے ہزاروں لاکھوں ثقہ صحیح العقیدہ امام برحق تھے مگر دین میں مروجہ تقلید کسی ایک کی بھی جائز نہیں اورلوگوں پر یہ فرض ہے کہ سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں قرآن وحدیث اور اجماع پر عمل کریں اور مروجہ تقلیدی مذاہب سے اپنے آپ کو دور رکھیں کیونکہ ان تقلیدی مذاہب کے اماموں کی پیدائش سے پہلے اہل سنت کا مذہب دنیا میں موجود تھا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:ابوحنیفہ ،مالک،شافعی ،اور احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  کے پیداہونے سے پہلے اہل سنت وجماعت کا مذہب قدیم ومشہور ہے کیونکہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  یہ صحابہ کا مذہب ہے۔(منہاج السنۃ ج1ص256 دین میں تقلید کامسئلہ ص63)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ187

محدث فتویٰ

تبصرے