السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگراسلامی مملکت کے قیام کے لیے کوئی جماعت بنتی ہے اور اس کے امیر کے ہاتھ پر تمام ممبران جماعت بیعت(بیعت ارشاد) کرتے ہیں تو اس کی کیاشرعی حیثیت ہوگی؟(جائز،غلط ،بدعت وغیرہ)؟ (عبدالمتین ،ماڈل ٹاؤن لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلامی مملکت کے قیام کے لیے ذاتی ،انفرادی اور جماعت سازی کے بغیر اجتماعی کوشش جاری رکھنی چاہیے اور سب سے پہلے اپنی اور اپنے متعلقین کی کتاب وسنت کے مطابق اصلاح کرنی چاہیے۔موجود تمام جماعتیں باطل ہیں اور "وَلَا تَفَرَّقُوا" اورفرقے فرقے نہ بنو۔(آل عمران:103) کے قرآنی حکم کے سراسر خلاف ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ سے معلوم ہوتا ہے کہ پارٹیاں پارٹیاں،فرقے فرقے اور گروہ گروہ نہ بنو۔جب کہ جماعت پرست لوگ عملاً یہ کہتے ہیں کہ پارٹیاں بناؤ اور گروہ درگروہ میں بٹ جاؤ۔
جب تک روئے زمین کے تمام صحیح العقیدہ لوگ مل کر ایک ہی جماعت اور ایک ہی خلیفہ کے تحت نہ ہوجائیں ان تمام پارٹیوں میں شمولیت جائز نہیں ہے۔ان کی رکنیت،چندہ مہم اور حزبیت سے دُور دُور رہ کر ان سے معروف(نیکی) میں تعاون کیا جاسکتاہے،اسلام میں صرف دو ہی بیعتیں ہیں:
1۔نبی کی بیعت
2۔خلیفہ کی بیعت
ان کے علاوہ تیسری کسی بعیت کا دین اسلام میں کوئی نام ونشان نہیں ہے تفصیل کے لیے شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کےمشہور شاگرد شیخ علی حسن الحلبی کی کتاب:"البيعة بين السنة والبدعة عند الجماعات الإسلامية"كا مطالعہ انتہائی مفید ہے۔
بیعت بھی صرف اسی خلیفہ کی کرنی چاہیے جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہو۔جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت ہے۔دیکھئے المسند من مسائل الامام رحمۃ اللہ علیہ (قلمی 1،بحوالہ الاماۃ العظمیٰ عنداہل السنۃ والجماعۃ ص 217) ومسائل الامام احمد لابن ہانیء (2/185 رقم:2011)والسنہ للخلال(ص80،81رقم:10 وھو صحیح عن احمد رحمۃ اللہ علیہ )
شیخ علی حسن الحلبی نے فرمایا:
"لاتكون البيعة الا لامير المومنين فقط"
امیرا لمومنین کے علاوہ کسی دوسرے کی بیعت جائز نہیں ہے۔البیعہ ص 23)
علی حسن الحلبی صاحب نے مزیدلکھاہے:
"لا تعطي البيعة علي انواعها الا لخليفة المسلمين المنفذ للاحكام المطبق للحدود"
"بیعت اپنی تمام اقسام کے ساتھ صرف اسی کی کرنی چاہیے جو مسلمانوں کا خلیفہ ہو،جس نے احکام کو نافذ اور(اسلامی) حدود کو رد بعمل(لاگو) کررکھاہو۔(البیعہ ص 28)
وماعلینا الا البلاغ (20/صفر 1427ھ) (الحدیث :25)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب