سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(40) قبر میں نبی کریم ﷺ کی حیات کا مسئلہ

  • 20933
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 4489

سوال

(40) قبر میں نبی کریم ﷺ کی حیات کا مسئلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں۔سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ زندگی اُخروی وبرزخی زندگی ہے یا دنیاوی زندگی ہے؟ ادلہ اربعہ جواب دیں ،جزاکم اللہ خیرا (ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا کی زندگی گزار کر فوت ہوگئے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَيِّتونَ ﴿٣٠﴾...سورة الزمر

"بے شک تم وفات پانے والے ہو اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں"

سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"أَلا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ"الخ

"سن لو! جوشخص محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عبادت کرتا تھا تو بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوگئے ہیں" (صحیح البخاری :3668)

اس موقع پر سیدنا ابوبکر الصدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے:

"وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ"الخ

 (آل عمران:144) والی آیت تلاوت فرمائی تھی۔ان سے یہ آیت سن کر (تمام) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے یہ آیت پڑھنی شروع کردی۔(البخاری:1242،1241)

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بھی اسے تسلیم کرلیا۔دیکھئے صحیح البخاری(4454)

معلوم ہوا کہ اس پر صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا اجماع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوگئے ہیں۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے فرمایا:

"مات النبي صلى الله عليه وسلم"الخ "

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوگئے ہیں۔(صحیح البخاری :4446)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَا مِنْ نَبيٍّ يَمْرَضُ إِلاَّ خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ"

"جو نبی بھی بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اورآخرت کے درمیان اختیار دیاجاتا ہے۔(صحیح البخاری 4586 صحیح مسلم :2444)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے د نیا کے بدلے میں آخرت کو اختیار کرلیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد آپ کی زندگی اُخروی زندگی ہے جسے بعض علماء برزخی زندگی بھی کہتے ہیں۔

ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:

"كُنْتُ أَسْمَعُ أَنَّهُ لَا يَمُوتُ نَبِيٌّ حَتَّى يُخَيَّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"

"میں(آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے) سنتی تھی کہ کوئی نبی وفات نہیں پاتا یہاں تک کہ اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دے دیا جاتاہے۔(البخاری:4435 ومسلم :2444)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی فرماتی ہیں:

"فَجَمَعَ اللَّهُ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ الدُّنْيَا وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ الْآخِرَةِ" (صحیح البخاری :4451)

"پس اللہ تعالیٰ نے آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میرے اور آپ کے لعاب دہن کو(مسواک کے ذریعے سے) اکٹھا کردیا"

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک دوسری روایت میں ہے:

"لقد مات رسول الله صلي الله عليه وسلم.....الخ"

"یقیناً رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوگئے ہیں"(صحیح مسلم:29/2974وتر قیم دارالسلام :7453)

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں۔ان صحیح ومتواتر دلائل سے معلوم ہوا کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فداہ ابی وامی وروحی،فوت ہوگئے ہیں۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اپنی نماز کے بارے میں فرماتے تھے:

"إن كانت هذه لصلاته حتى فارق الدنيا"

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہی نماز تھی حتیٰ کہ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دنیا سے چلے گئے"(صحیح البخاری:803)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں فرمایا:

"حتى فارق الدنيا" حتیٰ کہ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دنیا سے چلے گئے"(صحیح مسلم :33/2976 ودارالسلام:7458)

سیدنا ابوہریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہی  فرماتے ہیں:

"خرج رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من الدنيا.....الخ"(صحیح البخاری:5414)

ان ادلہ قطعیہ کے مقابلے میں فرقہ دیوبندیہ کے بانی محمد قاسم نانوتوی(متوفی 1297ھ) لکھتے ہیں:

"ارواح انبیاء کرام علہیم السلام کا اخراج نہیں ہوتا فقط مثل نور چراغ اطراف وجوانب سے قبض کرلیتے ہیں یعنی سمیٹ  لیتے ہیں اور سوااُن کے اوروں کی ارواح کو خارج کردیتے ہیں۔۔۔۔۔"(جمال قاسمی ص 15)

تنبیہ:۔

میر محمد کتب خانہ باغ کراچی کے مطبوعہ رسالے"جمال قاسمی" میں غلطی سے "ارواح" کے بجائے"ازواج" چھپ گیا ہے۔اس غلطی کی  اصلاح کے لیے دیکھئے سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب"تسکین الصدور:"(ص 216) محمد حسین نیلوی مماتی دیوبندی کی کتاب"ندائے حق" (ج1ص 572وص 635)

نانوتوی صاحب فرماتے ہیں:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات دنیوی علی الاتصال ابتک برابر مستمر ہے اسمیں انقطاع یاتبدیل وتغیر جیسے حیات دنیوی کاحیات برزخی ہوجانا واقع نہیں ہوا"(آب حیات ص 27)

"انبیاء بدستور زندہ ہیں"(آب حیات ص 36)

نانوتوی صاحب کے اس خود ساختہ نظریے کے بارے میں نیلوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:

"لیکن حضرت نانوتوی کا یہ نظریہ صریح خلاف ہےاس حدیث کے جو امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مسند میں نقل فرمایا ہے۔۔۔"(ندائےحق جلد اول ص636)

نیلوی صاحب مزید فرماتے ہیں:

"مگر انبیاء کرام علیہ السلام کے حق میں مولانا نانوتوی قرآن وحدیث کی نصوص و اشارات کے خلاف جمال قاسمی ص15 میں فرماتے ہیں:

ارواح انبیاء کرام علیہ السلام کا اخراج نہیں ہوتا"(ندائے حق جلد اول ص721)

لطیفہ:۔

نانوتوی صاحب کی عبارات مذکورہ پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد عباس رضوی بریلوی لکھتا ہے:

"اور اس کے برعکس امام اہل سنت مجدددین ملت مولانا الشاہ احمد

رضا خان صاحب و فات(آنی) ماننے کے باوجود قابلِ گردن زنی ہیں"

(واللہ آپ زندہ ہیں ص 124)

یعنی بقول رضوی بریلوی،احمدرضا خان بریلوی کا وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں وہ عقیدہ نہیں جو محمد قاسم نانوتوی کاہے۔!

2۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وفات کے بعد،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جنت میں زندہ ہیں۔سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیان کردہ حدیث میں آیا ہے کہ فرشتوں(جبریل ومیکائیل  علیہ السلام  ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے فرمایا:

"إِنَّهُ بَقِيَ لَكَ عُمُرٌ لَمْ تَسْتَكْمِلْهُ فَلَوِ اسْتَكْمَلْتَ أَتَيْتَ مَنْزِلَكَ "

"بے شک آپ کی عمر باقی ہے جسے آپ نے(ابھی تک) پورا نہیں کیا۔جب آ پ یہ عمر پوری کرلیں گے تو اپنے(جنتی) محل میں آجائیں گے۔(صحیح البخاری 1/185ح1386)

معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا کی عمر گزار کر جنت میں اپنے محل میں پہنچ گئے ہیں۔

شہداء کرام کے بارے میں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں:

"أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ"

"ان کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں ہوتی ہیں،ان کے لیے عرش کے نیچے قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں۔وہ(روحیں) جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیرکرتی ہیں  پھر واپس ان قندیلوں میں پہنچ جاتی ہیں۔(صحیح مسلم :121/887اودارالسلام:4885)

جب شہداء کرام کی روحیں جنت میں  ہیں تو انبیاء کرام علیہ السلام   اُن سے بدرجہ ہا اعلیٰ جنت کے اعلیٰ افضل ترین مقامات ومحلات میں ہیں۔شہداء کی یہ حیات جنتی،اُخروی وبرزخی ہے،اسی طرح انبیاء کرام  علیہ السلام   کی یہ حیات  جنتی،اُخروی وبرزخی ہے۔

حافظ ذہبی (متوفی 748ھ) لکھتے ہیں:

"وهو حي في لحده حياة مثله في البرزخ "

اور آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی قبر میں برزخی طور پر زندہ ہیں۔(سیر اعلام النبلاء 9/161)

پھر وہ یہ فلسفہ لکھتے ہیں کہ یہ زندگی نہ تو ہر لحاظ سے دنیاوی ہے اور نہ ہرلحاظ سے  جنتی ہے بلکہ اصحاب کہف کی زندگی سے مشابہ ہے۔(ایضاً ص 161)

حالانکہ اصحاب کہف دنیاوی زندہ تھے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر بہ اعتراف حافظ ذہبی وفات آچکی ہے لہذا صحیح یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی ہرلحاظ سے جنتی زندگی ہے یاد رہے کہ حافظ ذہبی بصراحت خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے دنیاوی زندگی کے عقیدے کے مخالف ہیں۔

حافظ ابن حجر العسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:

"لِأَنَّهُ بَعْدَ مَوْتِهِ وَإِنْ كَانَ حَيًّا فَهِيَ حَيَاةٌ أُخْرَوِيَّةٌ لَا تُشْبِهُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا , وَاَللَّهُ أَعْلَمُ"

"بے شک آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی وفات کے بعد اگرچہ زندہ ہیں لیکن یہ اخروی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی کے مشابہ نہیں ہے۔واللہ اعلم۔(فتح الباری ج 7 ص 349 تحت ح 4042)

معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  زندہ ہیں لیکن آپ کی زندگی اُخروی وبرزخی ہے ،دنیاوی نہیں ہے۔

اس کے برعکس علمائے دیوبند کایہ عقیدہ ہے:

"وَحَيَاتُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دُنْيَوِيَّةٌ مِنْ غَيْرِ تَكْلِيْفٍ وَهِيَ مُخْتَصَّةٌ بِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِجَمِيْعِ الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ وَالشُّهَدَاءِ....لابرزخيه "

"ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی قبرمبارک میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے بلامکلف ہونے کے اور یہ حیات مخصوص ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  اور تمام انبیاء علہیم السلام اور شہداء کے ساتھ برزخی نہیں ہے جو تمام مسلمانوں بلکہ سب آدمیوں کو۔۔۔"(المہند علی النفند فی عقائد دیوبند ص 221 پانچواں سوال:جواب)

محمد قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات دنیوی علی الاتصال ابتک برابر مستمر ہے اس میں انقطاع یا تبدیل وتغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ہوجانا واقع نہیں ہوا"(آب حیات ص 27)

دیوبندیوں کایہ عقیدہ سابقہ نصوص کے  مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

سعودی عرب کے جلیل القدر شیخ صالح الفوزان لکھتے ہیں:

"الذي يقول:ان حياته في البرزخ مثل حياته في الدنيا كاذب وهذه مقالة الخراقين "

"جو شخص یہ کہتا ہے کہ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی برزخی زندگی دنیا کی طرح ہے وہ شخص جھوٹا ہے۔یہ من گھڑت باتیں کرنے والوں کا کلام ہے۔(التعلیق المختصر علی القصیدہ النونیہ،ج2ص 684)

حافظ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی ایسے لوگوں کی تردید کی  ہے جو برزخی حیات کے بجائے دنیاوی حیات کا عقیدہ رکھتے ہیں۔(النونیہ،فصل فی الکلام فی حیاۃ الانبیاء فی قبورھم 2/154۔155)

امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  (برزخی) ردارارواح کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں:

"فَهُمْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ كَالشُّهَدَاءِ"

"پس وہ (انبیاء علیہ السلام  ) اپنے رب کے پاس،شہداء کی طرح زندہ ہیں۔(رسالہ حیات الانبیاء للبیہقی ص 20)

یہ عام صحیح العقیدہ آدمی کو بھی معلوم ہے کہ شہداء کی زندگی اُخروی وبرزخی ہے،دنیاوی نہیں ہے۔عقیدہ حیات النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  پر حیاتی ومماتی دیوبندیوں کی  طرف سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں مثلاً مقام حیات ،آب حیات ،حیات انبیاءکرام  علیہ السلام  ،ندائےحق اور اقامۃ البرھان علی ابطال وساوس ھدایۃ لحیران وغیرہ

اس سلسلے میں بہترین کتاب مشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد اسماعی سلفی  رحمۃ اللہ علیہ  کی "مسئلہ حیاۃالنبی  صلی اللہ علیہ وسلم  "ہے۔

3۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ،اپنی قبر مبارک پر لوگوں کا  پڑھا ہوادرود بنفس نفیس سنتے ہیں اور بطور دلیل:

"مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ"

والی روایت پیش کرتے ہیں۔عرض ہے کہ یہ روایت ضعیف مردود ہے۔اس کی دو سندیں بیان کی جاتی ہیں:

اول: "محمد بن مروان السدي عَنِ الأعْمَشِ عَنْ أبي صَالِحٍ عَنْ أبي هُرَيْرَةَ.....الخ"

(الضعفاء للعقیلی 4/136،137 وقال:لااصل لہ من حدیث اعمش ولیس بمحفوظ الخ وتاریخ بغداد 3/292 ت 377 وکتاب الموضوعات لابن الجوزی 1/303 وقال:ھذا حدیث لا یصح الخ)

اس کا راوی محمد بن مردان السدی:متروک الحدیث(یعنی سخت مجروح) ہے۔(کتاب الضعفاء للنسائی:538)

اس پر شدید جروح کے لیے دیکھئے امام بخاری کی کتاب الضعفاء(350،مع تحقیقی:تحفۃ الاقویاء ص 102) ودیگر کتب اسماء الرجال حافظ ابن القیم نے اس روایت کی ایک اور سند بھی دریافت کرلی ہے۔

"حدثنا عبد الرحمن بن أحمد الأعرج حدثنا الحسين بن الصباح حدثنا أبو معاوية حدثنا الأعمش عن أبي هريرة رضي الله عنه "

(جلاء الافہام ص 54 بحوالہ کتاب الصلوٰۃ علی النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  لابی الشیخ الاصبہانی)

اس کا راوی عبدالرحمان بن احمد الاعرج غیر موثق(یعنی مجہول الحال) ہے۔سلیمان بن مہران الاعمش مدلس ہیں۔(طبقات المدلسین:55/2 والتخلیص الجیر 3/48 ح 1181 وصحیح ابن حبان،الاحسان  طبعہ جدیدہ 1/161او عام کتب اسماء الرجال)

اگر کوئی کہے کہ حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ لکھا ہے کہ اعمش کی ابوصالح سے معنعن روایت سماع پرمحمول ہے۔(دیکھئے میزان الاعتدال 2/224)

تو عرض ہے کہ یہ قول صحیح نہیں ہے ۔امام احمد نے اعمش کی ابو صالح سے(معنعن)روایت پر جرح کی ہے ۔دیکھئے سنن الترمذی(207بتحقیقی)

اس مسئلے میں ہمارے شیخ ابو القاسم محب اللہ شاہ الراشدی  رحمۃ اللہ علیہ  کو بھی وہم ہوا تھا۔صحیح یہی ہے کہ اعمش طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں اور غیرصحیحین میں اُن کی معنعن  روایات،عدمِ تصریح وعدم متابعت کی صورت میں ضعیف ہیں لہذا ابو الشیخ والی یہ سند بھی ضعیف ومردود ہے۔

یہ روایت: "مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ" اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے۔جس میں آیا ہے:

"إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ"

"بے شک زمین میں اللہ کے فرشتے سیر کرتے رہتے ہیں،وہ مجھے میری اُمت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔(کتاب فضل الصلوٰۃ علی النبی  صلی اللہ علیہ وسلم للامام اسماعیل بن اسحاق القاضی :21 وسندہ صحیح ،والنسائی 3/43 ح 1283،الشوری صرح بالمساع)

اس حدیث کو ابن حبان(موارد:2392) وابن القیم(جلاء الافہام ص 60) وغیرھما نے صحیح قرار دیاہے۔

خلاصہ التحقیق:۔

اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوگئے ہیں، وفات کے بعد آپ جنت میں زندہ ہیں ۔آپ کی یہ زندگی اُخروی ہے جسے برزخی زندگی بھی کہاجاتا ہے۔یہ زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہے۔(21/ربیع الثانی 1426ھ) (الحدیث:15)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ164

محدث فتویٰ

تبصرے