سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) حسین بن منصور الحلاج

  • 20931
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3723

سوال

(38) حسین بن منصور الحلاج

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اس خط کے ذریعے سے یہ معلوم کرنا چاہتاہوں کہ یہ منصور حلاج کون تھا۔کس صدی میں گزرا ہے،اور کس جرم کی  پاداش میں اسے قتل کیا گیا تھا۔محدثین اور علماء محققین منصور حلاج کے بارے میں کیا  فرماتے ہیں۔دلائل سے ثابت کریں۔(انعام الرحمٰن ،تحصیل وضلع صوابی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حسین بن منصور  الحلاج،جسے جاہل لوگ منصورالحلاج کے نام سے یاد کرتے ہیں،کا مختصر وجامع تعارف درج ذیل ہے :

1۔حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"وَقد ترْجم لَهُ الْحَافِظ الذَّهَبِيّ فَقَالَ الْحُسَيْن بن مَنْصُور الحلاج الْمَقْتُول على الزندقة مَا روى وَللَّه الْحَمد شَيْئا من الْعلم وَكَانَ لَهُ بداية جَيِّدَة وتأله وتصوف ثمَّ انْسَلَخَ من الدّين وَتعلم السحر وأراهم المخاريق وأباح الْعلمَاء دَمه انْتهى "

اسے زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔اللہ کا شکر ہے کہ اس نے علم کی کوئی چیز روایت نہیں کی،اُس کی ابتدائی حالت(بظاہر) اچھی تھی،عبادت گزاری  اور تصوف(کااظہار کرتاتھا) پھر وہ دین(اسلام) سے نکل گیا،جادوسکھا اور(استدراج کرتے ہوئے) خرق عادت چیزیں لوگوں کو دکھائیں ،علماء کرام نے فتویٰ دیا کہ اس کا خون (بہانا) جائز ہے لہذا اُسے 311ھ میں قتل کیا گیا۔(میزان الاعتدال ج1ص 548)

2۔حافظ ابن حجر العسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

لوگوں کا اس(حسین بن منصور الحلاج) كے بارے میں اختلاف ہے،اکثریت کے نزدیک وہ زندیق گمراہ(تھا)ہے۔(لسان المیزان ج2 ص 314 والنسخۃ المحققہ 2/582)

دورِمتاخرین میں اسماء الرجال کے ان دو جلیل القدر اماموں اور اسماء الرجال کی دو مشہور ترین کتابوں سے جمہورعلماء کے نزدیک حلاج مذکور کا زندیق وگمراہ ہونا ثابت ہوتاہے۔

3۔جلیل القدر امام ابو عمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا بن  یحییٰ البغدادی(ابن حیویہ)  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"لما أخرج الحسين بن منصور الحلاج ليقتل مضيت في جملة الناس، ولم أزل أزاحم حتى رأيته فدنوت منه فقال لأصحابه: لا يهولنكم هذا الأمر، فإني عائد اليكم بعد ثلاثين يوما، ثم قتل"

"جب حسین(بن منصور) حلاج کو قتل کے لیے(جیل سے) نکالاگیا تو میں بھی لوگوں کے ساتھ(اُسے دیکھنے کے لیے) گیا،میں نے لوگوں کے رش کے باجود اُسے دیکھ لیا،وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا:"تم اس سے نہ ڈرنا،میں تیس (30) دنوں کے بعد تمہارے پاس دوبارہ(زندہ ہوکر) آجاؤں گا"پھر وہ قتل کردیاگیا۔

(تاریخ بغداد ج8 ص 131 ت 4132وسندہ صحیح المنتظم لابن الجوزی 13/406 وقال:" "وهذا الاسناد صحيح لا شك فيه""لسان المیزان 2/315 وقال:"واسنادھا صحیح")

اس صحیح سند سے معلوم ہوا کہ حسین بن منصور حلاج جھوٹا شخص تھا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"وعند جماهير المشايخ الصوفية وأهل العلم أن الحلاج لم يكن من المشايخ الصالحين؛ بل كان زنديقا"

جمہور مشائخ تصوف اوراہل علم(علمائے حق) کے نزدیک حلاج نیک لوگوں میں سے نہیں تھا بلکہ زندیق(بہت بڑا ملحدوگمراہ) تھا۔(مجموع فتاویٰ ج8 ص318)

شیخ الاسلام نے فرمایا:

"الحمد لله رب العالمين . الحلاج قتل على الزندقة"

"اللہ رب العالمین کا شکر ہے،حلاج کو زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔(مجموع فتاویٰ 35/108)

شیخ الاسلام نے مزید فرمایا:

"وكذلك من لم يجوز قتل مثله فهو مارق من دين الإسلام"

"اور اسی طرح جو شخص حلاج کے قتل کو جائز نہیں سمجھتا تو وہ(شخص) دین اسلام سے خارج ہے۔(مجموع فتاویٰ ج2 ص 486)

4۔حافظ ابن الجوزی نے اس(حسین بن منصور) کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے:

"القاطع المحال اللجاج القاطع بمحال الحلاج"(المنتظم 13/204)

ابن جوزی  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:

"أنه کان مُمَخْرِقاً"

"بے شک وہ جھوٹا باطل پرست تھا۔(ایضاً 13/206)

ان شدید جرحوں کے مقابلے میں حلاج مذکور کی تعریف وتوثیق ثابت نہیں ہے۔

ظفر احمد عثمانی تھانوی دیوبندی صاحب نے اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کی زیرنگرانی ایک کتاب لکھی ہے"القول المنصور فی ابن منصور ،سیرت منصور حلاج" یہ کتاب مکتبہ دارالعلوم کراچی نمبر14 سے شائع ہوئی ہے۔اس کتاب میں تھانوی صاحب نے موضوع،بے اصل اور مردود روایات جمع کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ (دیوبندیوں کے نزدیک)حسین بن منصور حلاج اچھاآدمی تھا۔(!)

مثال نمبر1:تھانوی صاحب نے لکھا ہے:"لوگوں کے اسرار بیان کردیتے ،ان کے دلوں کی باتیں بتلادیتے(یعنی کشف ضمائر بھی حاصل تھا)اسی وجہ سے ان کو حلاج الاسرار کہنے لگے،پھر حلاج لقب پڑگیا۔"(سیرت منصور  حلاج ص 31)

تبصرہ:۔

اس قول کی بنیاد تاریخ بغدادکی ایک روایت ہے جسے احمد بن الحسین بن منصور نے تستر میں بیان کیا تھا(ج 8 ص 113) احمد بن الحسین بن منصور کے حالات معلوم نہیں ہیں لہذا یہ شخص مجہول ہے۔

مثال نمبر 2:۔

تھانوی صاحب نے لکھا ہے:"حسین بن منصور نے فرمایا کہ :اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لیے حدوث کو لازم کردیا ہے۔۔۔۔۔"(سیرت منصور حلاج ص 47 بحوالہ رسالہ قشیریہ)

عبدالکریم بن ہوازن القشیری کے الرسالۃ القشیریۃ میں یہ عبارت بحوالہ ابوعبدالرحمان (محمد بن الحسین) السلمی النیسابوری لکھی ہوئی ہے۔(ص 13 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

ابوعبدالرحمان السلمی اگرچہ اپنے عام شہروالوں اور اپنے مریدوں کے نزدیک جلیل القدر تھا مگر اسی شہر کے محدث بن یوسف القطان النیسابوری:

"وکان صدوقاً، له معرفة بالحديث وقد درس شئياً من فقه الشافعي، وله مذهب مستقيم و طريقة جميلة "

تاریخ بغداد 3/411) فرماتے ہیں:

 "کان أبو عبدالرحمٰن السلمي غير ثقة…….وکان يضع للصوفية الاحاديث"

ابوعبدالرحمان السلمی غیر ثقہ تھا۔۔۔اور وہ صوفیوں کے لیے احادیث گھڑتا تھا۔(تاریخ بغداد ج2ص 248وسندہ صحیح)

 اس شدید جرح کے مقابلے میں سلمی مذکور کی تعدیل بطریقہ محدثین ثابت نہیں ہے۔سلمی کے استاد محمد بن محمد بن غالب اور اس کے استاد ابونصر احمد بن سعید الاسفنجانی کی توثیق بھی مطلوب ہے۔خلاصہ یہ کہ اس موضوع سند کوتھانوی صاحب نے فخریہ پیش کیا ہے۔

تنبیہ تبلیغ:۔

عبدالکریم بن ہوازن نے رسالہ قشیریہ میں حسین الحلاج کو بطور ولی ذکر نہیں کیا۔رسالہ قشیریہ اس کے ترجمہ سے خالی ہے کسی دوسرے شخص کے حالات میں ذیلی طور  پر اگر ایک موضوع روایت میں اُس کا نام آگیا ہے تو اس پر خوشی نہیں منانی چاہیے۔

خلاصۃ التحقیق:۔

حسین بن منصور الحلاج اولیاء اللہ میں سے نہیں تھا بلکہ وہ ایک گمراہ و زندیق صوفی تھاجسے جلیل القدر فقہاء اسلام کے متفقہ فتوے کی بنیاد پر چوتھی صدی ہجری کے شروع میں قتل کردیا گیا تھا۔اس کی کرامتوں کے بارے میں سارے قصے موضوع وبے اصل ہیں۔

حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"ولا أری يتعصب  للحلاج إلا من قال بقوله الذي ذکر أنه عين الجمع فهذا هو قول اهل الوحدۃ المطلقة ولهذا تری ابن عربي صاحب الفصوص يعظمه ويقع فی الجنيد والله الموفق "

میری رائے میں حلاج کی حمایت ان لوگوں  کے سوا کوئی نہیں کرتا جو اس کی اس بات کے قائل ہیں جس کو وہ عین جمع کہتے ہیں اور یہی اہل وحدت مطلقہ کا قول ہے اس لیے تم ابن عربی صاحب فصوص کودیکھو گے کہ وہ حلاج کی تو تعظیم کرتے ہیں اورجنید کی تحقیر کرتے ہیں۔(لسان المیزان ج2ص 315 وسیرت منصور حلاج ص 45حاشیہ)

اہل وحدت مطلقہ سے مراد وہ صوفی حضرات ہیں جو وحدت الوجود اور حلولیت کاعقیدہ رکھتے ہیں:"وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا"

اس قول کا رد ظفر احمد تھانوی صاحب نے رسالہ قشیریہ کی موضوع روایت سے کرنے کی کو شش کی ہے ۔یہ ردتحقیقی میدان میں بذات خود مردود ہے۔تھانوی صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا ہےکہ"ابن منصور اورجنید کا عقیدہ توحید ایک ہی تھا"(ص 46) مگر انھوں نے اس دعویٰ پر کوئی صحیح دلیل پیش نہیں کی۔علمی میدان میں عبدالوہاب الشعرانی ،خرافی صوفی بدعتی کے بے سند حوالوں سے کام نہیں چلتابلکہ صحیح وثابت سندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

"الحدیث" حضرو کایہ امتیاز ہے کہ"الحدیث" میں صرف صحیح وثابت حوالہ ہی بطوراستدلال لکھا جاتا ہے۔اسماء الرجال کے حوالے بھی اصل کتابوں سے صحیح وثابت سندوں کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ضعیف روایات اور ضعیف حوالوں کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہے۔والحمدللہ علی ذلک۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث ہوں یا سلف صالحین کے آثار واسماء الرجال کے حوالے سب کے لیے صحیح وحسن لذاتہ اسانید کی ضرورت ہے۔

شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک المروزی  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 181ھ)فرماتے ہیں:

"الاسناد من الدين، ولولا الاسناد لقال من شاء ماشاء"

سند دین میں سے ہے ،اگر سند نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا۔(مقدمہ صحیح مسلم ترقیم دارالسلام :32 وسندہ صحیح)

وما علینا الا البلاغ(14 /شوال 1426ھ) (الحدیث:21)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ159

محدث فتویٰ

تبصرے