السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا امام الحسن بن علی البر بہاری کی"شرح السنۃ" نامی کوئی کتاب ہے؟(محمد خلیل چوہان ،جلال بلگن ،گوجرانوالہ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابو محمد الحسن بن علی بن خلف البر بہاری (متوفی 329ھ) حنابلہ کے بڑے اماموں میں سے تھے،حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"شيخ الحنابلة القدوة الإمام…. الفقه كان قوالاً بالحق داعياً إلى الأثر، لا يخاف في الله لومة لائم"(سیر اعلام النبلاء:15/90)
لیکن"شرح السنہ" کے نام سے جو کتاب مطبوع ہے وہ امام بر بہاری سے ثابت نہیں ہے،یہ کتاب جس قلمی نسخے سے شائع کی گئی ہے اس کے ٹائٹل پر لکھا ہوا ہے:
"كتاب شرح السنة عن أبي عبدالله أحمد بن محمد بن غالب الباهلي غلام خليل رحمه الله، رواية أبي بكر أحمد بن كامل بن خلف بن شجرة القاضي"
مخطوطے کے صفحہ اُولیٰ پر اس کتاب کی سند درج ذیل ہے:
"أخبرنا الشيخ الإمام الثقة أبو الحسن عبدالحق بن عبدالخالق، قيل له : أخبر كم أبو طالب عبدالقادر بن محمد بن عبدالقادر بن محمد بن يوسف بالمسجد الجامع وهو يسمع، قيل له : أخبركم الشيخ أبو إسحاق إبراهيم ابن عمر بن أحمد المكي فيما أذن لكم في روايته عنه وأجازه لكم، فاعرف بذلك وقال : نعم، قال : أنبأ أبو الحسن محمد بن العباس بن أحمد ابن الفرات رحمه الله في كتابه ومن كتابه قري، قال : أخبرنا أبو بكر أحمد ابن كامل بن خلف بن شجرة القاضي قرأة عليه قال : دفع إلى أبو عبدالله أحمد ابن محمد بن غالب الباهلي هذا الكتاب وقال لي : ارو عني هذا الكتاب من أوله إلى آخره، قال أبو عبد الله أحمد بن محمد بن غالب الباهلي.....الخ "
کتاب کے آخری صفحے پر لکھا ہوا ہے:
" قال أبو عبد الله غلام خليل"الخ
معلوم ہوا کہ یہ کتاب خلیل کی ہے جسے قاضی احمد بن کامل نے اس سے روایت کیاہے۔
اب اس کتاب کے بنیادی راویوں کا تعارف درج کیا جاتا ہے تاکہ حقیقت حال واضح اور شبہات کا ازالہ ہوسکے:
امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:"متروک"(کتاب الضعفاء والمتروکین للدارقطنی:58)
ابن عدی نے کہا:
" أحاديثه منا كير ، لا تحصى كثرة و هو بين الأمر بالضعف "(الکامل 1/199)
اسماعیل بن اسحاق القاضی نے غلام خلیل کو کہا:" قليلاً قليلاً ، تكذب"(المجروحین لابن حبان 1/151 وسندہ حسن)
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:" "معروف بالوضع" یعنی یہ شخص وضع حدیث کے ساتھ معروف ہے۔(دیوان الضعفاء:92)
شیخ خالد بن قاسم الردادی حنبلی سلفیوں میں بہترین اخلاق کے حامل عالم ہیں،سلفی شیوخ ان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں،ان سے میری ملاقات مدینہ طیبہ میں اُن کے گھر میں ہوئی تھی۔شیخ خالد حفظہ اللہ غلام خلیل کے بارے میں لکھتے ہیں:
"إنّ علام خليل هذا : كذاب وضاع"
"بے شک یہ غلام خلیل کذاب وضاع ہے"(مقدمہ شرح السنہ ص42)
(شیخ خالد کے شبہات کا جواب آگے آرہا ہے۔ان شاء اللہ)
قاضی ا حمد بن کامل کاتعارف:قاضی صاحب کی واضح توثیق کسی محدث سے ثابت نہیں ہے جبکہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"كان متساهلاً ، وبما حدث من حفظه ما ليس عنده في كتابه و أهلكه العجب"
"وه متسائل تھا بعض اوقات اپنے حافظے سے ایسی حدیث بیان کردیتا جوکہ اس کی کتاب میں نہیں ہوئی تھی،اسے تکبر نے ہلاک کردیا۔(سوالات السہمی:176)
بعد میں قاضی احمد بن کامل کی توثیق مل گئی لہذا قول راجح میں وہ جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث راوی ہیں۔دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو:55ص30۔
قاضی احمد کی توثیق ثابت ہونے کے باوجود"شرح السنۃ للبر بہاری"غیر ثابت ہی ہے کیونکہ غلام خلیل بذات خود کذاب ہے لہذا اما بربہاری اس کتاب سے بری ہیں۔
شیخ خالد ردادی کے شبہات کا ازالہ:۔
شیخ خالد ردادی مدنی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ "شرح السنہ للبربہاری"کے مخطوطے میں تحریف وتبدیلی ہوگئی ہے۔
1۔مخطوطے میں "عن القرن الثالث إلى القرن الرابع"(112) ہے جس سے ردادی صاحب تاریخی قرن(صدی) یعنی 301ھ سے 399ھ مراد لے رہے ہیں حالانکہ اس سے وہ قرن مراد ہے جن کا ذکر حدیث "خير الناس قرني" میں آیا ہے۔علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"الصَّحِيحُ أَنَّ قَرْنَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الصَّحَابَةُ ، وَالثَّانِي : التَّابِعُونَ ، وَالثَّالِثُ : تَابِعُوهُمْ "
"اور صحیح یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرن صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ہے پھر تابعین رحمۃ اللہ علیہ ہے اور پھر تبع تابعین ۔(شرح النووی لصحیح مسلم :16/85ح2533)
آخری صحابی ابو الطفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔110ھ۔میں فوت ہوئے۔(التقریب:3111)
آخری تابعی۔170ھ۔میں فوت ہوئے اور آخری تبع تابعین 220ھ میں فوت ہوئے۔(فتح الباری 7/6ح 3650)
اس حساب سے چوتھا قرن 220ھ سے لے کر 270 ھ یا 280 ھ تک ہے ،غلام خلیل 275ھ میں مرا تھا لہذا بشرط صحت اس کا یہ کہنا کہ:
" إلى القرن الرابع"بالکل صحیح ہے کیونکہ قرن رابع اس نے پوری طرح پایا ہے!اور اس سے 301ھ سے 399 ھ تک مراد لینا غلط ہے۔
2۔احمد بن کامل القاضی ،غلام خلیل کے مشہور شاگردوں میں سے ہے ،خطیب بغدادی لکھتے ہیں:
"روي عنه… و أحمد ين كامل القاضي"
یعنی غلام خلیل سے احمد بن کامل القاضی نے روایت بیان کی ہے۔(تاریخ بغداد 5/78)
احمد بن کامل ہی نے بتایا ہے کہ غلام خلیل۔275ھ۔میں فوت ہوا تھا،(تاریخ بغداد 5/80)حافظ ذہبی نے کہا:
"غلام خليل…و عنه ابن كامل"(میزان الاعتدال 1/141)
امام حاکم النیسابوری نے غلام خلیل کے ذکر میں کہا ہے:
"روي عن جماعة من الثقات أحاديث موضوعه على ماذكره لنا القاضي أبو بكر أحمد بن كامل بن خلف من زهده و ورعه و نعو ذباالله من زهد يقيم صاحبه ذلك المقام"(المدخل :ص 121ت18)
بربہاری کے شاگردوں میں احمد بن کامل اور احمد بن کامل کے شاگردوں میں بربہاری کا نام مجھے نہیں ملا۔
3۔بربہاری کی طرف منسوب یہ کتاب صرف غلام خلیل اور قاضی احمد بن کامل کی سند سے ہی معلوم ومعروف ہے،لہذا یہ ساری کتاب مشکوک ہے۔
4۔جن لوگوں نے بربہاری کے حالات لکھے ہیں اور کتاب"شرح السنہ"ان کی طرف منسوب کی ہے ان میں سے کسی نے بھی بربہاری کو نہیں دیکھا ،بے سند اقوال کی علمی میدان میں کوئی حجت نہیں ہوتی،مثلاً قاضی ابو الحسین محمد بن ابی یعلیٰ(پیدائش !451ھ وفات 526ھ) نے بغیر کسی سند کے حسن بن علی بن خلف البر بہاری(متوفی 329ھ) سے نقل کیا کہ انھوں نے شرح السنہ میں یہ لکھا ہے اور یہ لکھا ہے۔الخ(طبقات الحنابلہ 2/18۔46)
5۔اگر بطور تنزل یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ کتاب غلام خلیل کی نہیں بلکہ بربہاری کی ہی ہے،حالانکہ یہ محال اور باطل ہے تو بھی غلام خلیل کے کذاب اور وضاع ہونے کی وجہ سے شرح السنہ کا یہ نسخہ مردود اور غیر ثابت ہی ہے۔
6۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ امام ذہبی ،ابن عبدالھادی،ابن مفلح الحنبلی اور متاخرین نے بغیر کسی صحیح سند سے بر بہاری کے جو اقوال نقل کیے ہیں ممکن ہے ان سب کا ماخذ ابن ابی یعلیٰ کی طبقات الحنابلہ ہو،اور اگر نہ بھی ہوتوان کا ماخذ نامعلوم ہے لہذا ان نقول سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ شرح السنہ کا(غلام خلیل والا) نسخہ بربہاری کا ہی لکھاہوا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ مطبوعہ شدہ اور طبقات الحنابلہ والی:شرح السنہ ایک مشکوک کتاب ہے جسےامام بربہاری کی طرف منسوب کردیاگیا ہے،حالانکہ امام بربہاری سے یہ کتاب ثابت نہیں ہے،جس شخص کو میری اس تحقیق سے اختلاف ہے اس پر لازم ہے کہ وہ شرح السنہ کا اصلی نسخہ پیش کرکے اس کی سندہ کاصحیح ہونا ثابت کرے۔ "إذليس فليس ، و ما علينا إلا البلاغ"(الحدیث:2)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب