سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(32) ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام

  • 20925
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2499

سوال

(32) ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آزر،حضرت ابراہیم علیہ السلام   کاچچا تھا یا والد؟کیونکہ "اب" کالفظ والد کے ساتھ ساتھ چچا کے لیے بھی بولا جاتاہے اور قرآن میں استعمال ہوا ہے۔(طارق،دو میل ،مظفر آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آزر کے بارے میں دو مذاہب مشہور ہیں:

1۔ابراہیم علیہ السلام   کے والد کانام آزر ہے ۔

2۔آزر،ابراہیم علیہ السلام   کا والد نہیں ہے۔

میری تحقیق میں پہلا مذہب ہی صحیح اورحق ہے۔

1۔مذہب اول کے دلائل درج ذیل ہیں:

1۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَإِذ قالَ إِبر‌ٰهيمُ لِأَبيهِ ءازَرَ أَتَتَّخِذُ أَصنامًا ءالِهَةً ... ﴿٧٤﴾... سورة الانعام

ویاد کن چون گفت ابراہیم پدرخواہ آزر را خدا میگیری بتان را۔(فارسی ترجمہ از شاہ ولی اللہ  الدھلوی ص 166)

اورجب کہا ابراہیم علیہ السلام   نے اپنے باپ آزر کو،تو کیاپکڑتا ہے مورتوں کو خدا؟

(اردو ترجمہ ازشاہ عبدالقادر دہلوی ص 166)

2۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ آزَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ...الخ"

"ابراہیم علیہ السلام   قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملاقات کریں گے....الخ"(صحیح بخاری:3350)

3تا9: قرآن مجید میں درج ذیل آیات مبارکہ میں"کہہ کرابراہیم علیہ السلام   کےبت پرست والد کا ذکر کیا گیا ہے۔(3) سورۃ التوبہ،آیت:114)

(4)سورۃ الممتحنہ:4(5) مریم:42(6) الانبیاء علیہ السلام  :52) (7) الشعراء :70

(8) الصافات:85 (9) الزخرف:26۔

10۔اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام   کا قول نقل کیا :

﴿ وَاغفِر لِأَبى إِنَّهُ كانَ مِنَ الضّالّينَ ﴿٨٦﴾... سورةالشعراء

"اور میرے باپ کی مغفرت کر،بے شک وہ گمراہوں میں سےتھا"(سورۃ الشعراء:86)

ابراہیم  علیہ السلام  نے بار بار يـاأبَتِ کہہ کر اپنے والد کو مخاطب کیا۔

(11) سورہ مریم :42 (12) مریم:43 (13) مریم:44 (14) مریم:45

(15) سیدنا ابوہریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے  روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إن إبراهيم رأى أباه يوم القيامة عليه الغَبَرَةُ والقَتَرَةُ "

"بے شک ابراہیم علیہ السلام   اپنے باپ کو قیامت کے دن دیکھیں گے،اس پر گرد اور کالک چھائی ہوگی"

(السنن الکبریٰ للنسائی:ح11375،والتفسیر للنسائی:ح395 وسندہ صحیح ولہ طریق آخر عند البخاری فی صحیحہ :4768)

(16) اسماعیل بن عبدالرحمان السدی (تابعی رحمۃ اللہ علیہ ) نے کہا: "اسم أبيه آزر"

ابراہیم  علیہ السلام   کے باپ کا نام آزر ہے۔(تفسیر طبری:ج 7 ص158،وسندہ حسن لذاتہ)

تنبیہ:۔

ایک دوسری روایت میں سدی مذکور نے صیغہ تمریض استعمال کرتے ہوئے کہا: "ويقال : لا، بل اسمه تارح، واسم الصنم "آزر"

(تفسیر طبری:7/158،159 ،وسندہ حسن)

"ویقال"  میں اشارہ ہے کہ یہ دوسرا قول مردود ہے،مجہول قائل کا یہ مردود قول تفسیر ابن ابی حاتم(4/1325)اور درمنثور(3/23) میں الفاظ کےتغیر کے ساتھ مذکور ہے۔

2۔مذہب دوم کے دلائل درج ذیل ہیں:

1۔مجاہدتابعی  رحمۃ اللہ علیہ  سے مروی ہے کہ:

"آزر لم يكن بأبيه، ولكنه اسم صنم"

(تفسیر ابن ابی حاتم 4/1325،وتفسیر طبری7/158)

اس قول کی سند کا ایک راوی لیث بن ابی سلیم ہے،اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔دیکھئے تہذیب التہذیب (ج8 ص 417تا419)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"ولیث ضعیف"اور لیث(بن ابی سلیم) ضعیف ہے۔(فتح الباری ج2 ص 214 ح729)

ضعف کی وجہ اس کاآخری عمر میں اختلاط ہے۔

دیکھئے تقریب التہذیب(5685) لیث مذکور مدلس بھی ہے۔

دیکھئے کتاب"مشاهير علماء الأمصار" لابن حبان(ص 146 ارقم:1153)

لہذا یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ومردود ہے۔ایک دوسری سند میں ابن ابی نجیح مدلس راوی ہیں لہذا وہ سند بھی ضعیف ہے۔

2۔ابن جریج سے مروی ہے کہ" ليس آزر بأبيه" الخ(درمنثور ج3 ص 23 بحوالہ ابن المنذر)

اس روایت کی کوئی سند معلوم نہیں ہے،لہذا یہ روایت مردود ہے۔

3۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ:

"إن أبا إبراهيم لم يكن اسمه آزرُ، إنما كان اسمه تارح"

(تفسیر ابن ابی حاتم:4/1325 ح7491)

یہ روایت ضعیف ومردود ہے۔

بشر بن عمارہ التشعمی المکتب الکوفی:ضعیف ہے۔(التقریب:697)

ضحاک بن مزاحم نے ابن عباس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے (کچھ بھی ) نہیں سنا۔

دیکھئے کتاب الجرح والتعدیل (ج 4 ص 459 عن ابی زرعہ  رحمۃ اللہ علیہ )

مضبوط سند کے ساتھ مروی ہے کہ عبدالملک بن میسرہ نے ضحاک بن مزاحم سے پوچھا:

کیاآپ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے(کچھ) سناہے؟کہا:نہیں۔کہا:یہ(تفسیر) جو آپ بیان کرتے ہیں یہ کس سے لی ہے؟کہا:تجھ سے اور اس سے اور اُس سے۔

(کتاب الجرح والتعدیل ج 4ص 458،ج8ص333،کتاب المراسیل لابن ابی حاتم ص95)

اس روایت کے راوی معلیٰ بن خالد الرازی ثقہ ہیں اور ابواسامہ تدلیس معروف کے الزام سے بری تھے۔دیکھئے میری کتاب"الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین"(2/44)

تنبیہ(1):۔

ابن ابی حاتم نے حسن سند کے ساتھ ابن عباس( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے نقل کیا ہے کہ:

"يعني‌ بآزر: الصنم‌، و ‌أبو‌ إبراهيم‌ اسمه‌: يازر. و أمه‌ اسمها: مثاني‌.الخ" (تفسیر ابن ابی حاتم 4/1324)

یہ روایت اسرائیلیات سے ماخوذ ہے،یازراور آزر ایک ہی شخصیت کا نام ہے۔صرف لہجے میں فرق ہے جیسے ابراہیم  علیہ السلام   اور ابراہام ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں۔بت کا نام آزر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بت پرست کانام آزر نہیں ہوسکتا رام نامی ہندو،رام بت کی عبادت کرتا ہے حالانکہ عبادت صرف ایک اللہ ہی کی کرنی چاہیے۔

تنبیہ(2):۔

کسی ایک صحابی یاتابعی سے باسند صحیح قطعاً یہ ثابت نہیں کہ ابراہیم علیہ السلام   کے والد کانام آزر نہیں ہے۔

تنبیہ(3):۔

سلیمان التیمی سے مجہول سند کے ساتھ مروی ہے کہ:

"بلغني أنها أعوج، وأنها أشد كلمة قالها إبراهيم، عليه السلام لابيه" (تفسیر ابن ابی حاتم 4/1325)

یہ قول مذہب اول کے مخالف نہیں ہے کیونکہ ہٹ دھرم ضدی اور کافر باپ سے جو توحید کا انکار کرتے ہوئے اپنے بیٹےکو گھر سے نکال دے،عند الضرورت سخت الفاظ کہے جاسکتے ہیں۔

تنبیہ(4):۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام   کے والد کانام تارح اور لقب آزر ہے،یہ قول مذہب اول کے مطابق ہے،مخالف بالکل نہیں ہے۔

تنبیہ(5):۔

کسی ایک روایت سے قطعاً ثابت نہیں کہ قرآن میں"آزر" کا لفظ چچا"عم" کے بارے میں ہے جس شخص کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن میں بہت سی آیات میں "لابيه" یا "يـاأبَتِ" کے لفظ کا مطلب"لعمه" یا"ياعم"ہے۔اس سے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک دلیل قوی پیش کرے جو اس کے دعویٰ پر صریح ہو۔

خلاصہ التحقیق:۔

ابراہیم  علیہ السلام   کے والد کا نام آزر ہے،چچا کا نام آزر ثابت  نہیں ہے۔روح المعانی میں آلوسی نے ایک روایت لکھی ہے:

"لم أزل أنقل من أصلاب الطاهرين إلى أرحام الطاهرات "(روح المعانی:ج4 ص195)

یہ روایت بے اصل ہے اس مفہوم کی ایک باطل ومردود روایت ابو نعیم  اصبہانی کی دلائل النبوۃ میں بھی ہے۔(ج1 ص57ح15)

اس روایت کے درج ذیل راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں:

یزید بن ابی حکیم! موسیٰ بن عیسیٰ ،انس بن محمد ،محمد بن عبداللہ ،احمد بن محمد بن سعید المرزوی،محمد بن سلیمان الہاشمی۔

اس باطل روایت کے بارے میں حافظ سیوطی  رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے کہ:

"اخرجه ابو نعيم من طرق عن ابن عباس رضي الله عنه"

(الخصائص الکبری:1/37)

حالانکہ ابو نعیم نے اسے ایک ہی سند سے روایت کیا ہے۔

تفسیر ابن ابی حاتم(ج9 ص 2828 ح16028) وغیرہ میں حسن سند سے مروی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے"وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ"کی تفسیر میں فرمایا: "من نبيّ إلى نبيّ حتى أخرجك نبيّاً""یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ابراہیم علیہ السلام   کے بیٹے اسماعیل نبی  علیہ السلام   کی اولاد میں سے ہیں"

اس موقوف قول کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے والد عبداللہ،دادا عبدالمطلب ،پردادا ہاشم:یہ سب نبی تھے اور نہ یہ کسی کا عقیدہ ہے،صحیح بخاری کی صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے آباءواجداد میں سے اسماعیل  علیہ السلام   کے علاوہ کوئی بھی نبی نہیں تھا۔

دیکھئے کتاب بدءالوحی(باب:1ح7)

آلوسی نے لکھا ہے کہ:

"أخرجه ابن المنذر في تفسيره بسند صحيح عن سليمان بن صرد قال .....فقال عم إبراهيم : من أجلي دفع عنه....."(روح المعانی ج4 ص 195)

اس قول کی کوئی سند معلوم نہیں ہے،پتا نہیں کہ آلوسی نے کہاں سے یہ دعویٰ کررکھا ہے کہ "بسند صحیح" !،بے اصل وبے سند روایات کو"بسند صحیح" کہہ کر تسلیم کروانا بہت ہی عجیب کام ہے ۔اگریہ قول باسند صحیح ثابت ہوبھی جاتا تو اس کامطلب صرف یہ ہوتا کہ ابراہیم علیہ السلام   کا والد آزر اور چچا(نام غیرمعلوم)دونوں آپ علیہ السلام   کے سخت مخالف تھے،اور ایسا ہونا کوئی بعید نہیں ہے،یاد رہے کہ اس بے سند روایت میں ولدیت آزر کی نفی موجود نہیں ہے۔

محدث کبیر ابو الاشبال احمد محمد شاکر المصری  رحمۃ اللہ علیہ  نے صاف صاف  لکھا ہے کہ"

"أمّا أنّ اسم والد إبراهيم (آزر) فإنه عندنا أمر قطعي الثبوت، بصريح القرآن في هذه الآية بدلالة الألفاظ على المعاني، وأما التأويل والتلاعب بالألفاظ فما هو الا انكار مقنع لمضمون الكلام ومعناه‘ وسواء اكان اسمه في قول اهل النسب نقلاً عن الكتب السابقة "تارح" اولم يكن ‘فلا اثرله في وجوب الايمان بصدق مانص عليه القرآن وبدلالة لفظ"لابيه" علي معناه الوضعي في اللغة ‘والقرآن هو المهيمن علي ما قبله من كتب الاديان السابقة ثم يقطع كل شك ويذهب بكل تاويل الحديث الصحيح الذي رواه البخاري(٤/١٣٩ من الطبعة السلطانيه /٦/٢٧٦ من فتح  الباري)

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِي صلى الله عليه وسلم قَالَ : ) يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ آزَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ ، فَيَقُولُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ : أَلَمْ أَقُلْ لَكَ لاَ تَعْصِنِي ؟ فَيَقُولُ أَبُوهُ : فَالْيَوْمَ لاَ أَعْصِيكَ . فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ : يَا رَبِّ ، إِنَّكَ وَعَدْتَنِي أَنْ لاَ تُخْزِيَنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ ، فَأَي خِزْىٍ أَخْزَى مِنْ أَبِي الأَبْعَدِ ؟! فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى : إِنِّي حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَى الْكَافِرِينَ ، ثُمَّ يُقَالُ : يَا إِبْرَاهِيمُ مَا تَحْتَ رِجْلَيْكَ ؟ فَيَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ بِذِيخٍ مُلْتَطِخٍ ، فَيُؤْخَذُ بِقَوَائِمِهِ فَيُلْقَى فِي النَّارِوليس بعد هذا النص مجال للتاعب "

یعنی:ابراہیم  علیہ السلام   کے والد کا نام آزر ہونا ہمارے نزدیک،اس آیت کریمہ میں قرآن کی صراحت کے ساتھ قطعی الثبوت ہے،الفاظ بھی اس معنی پردلالت کرتے ہیں،رہا تاویلیں کرنا اور الفاظ کے ساتھ کھیلنا تو یہ قرآن کے مضمون کا انکار ہی ہے ،اہل نسب نے پہلی (محرف شدہ) کتابوں سے تارح نقل کیا ہے،اس کا قرآن کے مقابلے میں کوئی اثر(واعتبار) نہیں ہے،لغت میں""کا لفظ اصل میں باپ پر دلالت کرتا ہے،اور قرآن مجید پہلی تمام کتابوں پر فیصلہ کن  حاکم اور نگران ہے۔پھر اس صحیح حدیث سے بھی ہرقسم کا  شک اور تاویل باطل ہوجاتی ہے جسے بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی سند سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے نقل کیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام   قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملاقات کریں گے اورآزر کے چہرے پر کالک اورگردوغبار چھایا ہوگا تو اسے ابراہیم  علیہ السلام   کہیں گے:کیا  میں نے تجھے یہ نہیں کہا تھا:میری نافرمانی نہ کر؟(صحیح بخاری:3350) اس حدیث کے بعد کسی تلاعب)الفاظ کے ساتھ کھیلنے)کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔(عمدۃ التفسیر ج5 ص53)(الحدیث:3)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ122

محدث فتویٰ

تبصرے