السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم بطحاء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے،ایک بادل گزرا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ہم نے کہا:بادل،فرمایا:یہ مزن ہے ،ہم نے کہا:ہاں مزن ہے،فرمایا :اور عنان،ہم خاموش ہوگئے۔آپ نے پوچھا:تمھیں معلوم ہے زمین و آسمان کے درمیان کتنی مسافت ہے؟ہم نے کہا:اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں۔فرمایا:ان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ہرآسمان کی موٹائی پانچ سو سال ہے۔پھر ایک سمندر ہے اس کی مسافت زمین وآسمان کی مسافت کے برابر ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے اوپر ہے۔بنو آدم کے اعمال میں سے کوئی بھی عمل اس سے مخفی نہیں ۔
(ابوداود:4723،ابن ماجہ:1،مسند احمد ج 1ص 206،وحسنہ الترمذی:3320:کتاب التوحید للامام ابن خزیمہ 101،102،من طرق آخر،کتاب العلوللذھبی ص 108،۔وقال:تفرد بہ سماک عن عبداللہ بن عباس وغیرہ وفیہ جھالۃ۔۔۔الخ ونقلہ الالبانی فی ضعیف سنن ابی داود)
لیکن علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے ایک طریق(سند) ابراہیم بن طہان عن سماک کو شاید صحیح کہا ہے دیکھیں ص 109 طبع الھند۔آپ کیا فرماتے ہیں؟(ایک سائل)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ (3320) نے حسن قرار دیاہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔ سماک بن حرب اختلاط کا شکار ہوگئے تھے اور ان کا یہ روایت قبل از اختلاط بیان کرنا معلوم نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ عبداللہ بن عمیرہ کا احنف بن قیس سے سماع معروف نہیں ہے۔(دیکھئے التاریخ الکبیر للسخاوی 5/159) (شہادت،مارچ 2003ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب