سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور تقلید

  • 20923
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2890

سوال

(30) حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور تقلید

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم  حافظ صاحب چند سوالات ہیں مہربانی  فرماکر ان کے جوابات مفصل دیے جائیں۔جوابات دینے میں تھوڑیدیر ہوجائے تو کوئی بات نہیں لیکن جواب مفصل ہونے چاہیں اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔(آمین)

1۔حافظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  اور حافظ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  کا مسلک ان کی کتابوں سے باحوالہ نقل فرمائیں کہ یہ مقلد تھے یا غیر مقلد؟

2۔نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا ان کی کتابوں میں سے شرک وغیرہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔بریلوی(حضرات حافظ ابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ ) کتاب الروح وغیرہ سے یہ عقیدہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ مُردوں کے سننے  اور اُن سے مدد مانگنے کے قائل تھے۔کیا ان کی مزید(دوسری) کتابوں میں،مُردے اور غائب سے مدد مانگنا ،ناجائز یا شرک لکھا ہواموجود ہے۔اگر ہے توباحوالہ لکھیں۔ایک بریلوی دوست کہتا ہے کہ ہمارا عقیدہ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  سے ملتا ہے۔کیا واقعی یہ بات درست ہے؟اگرنہیں تو وضاحت فرمائیں۔اگر ان میں سے کوئی سوال "الحدیث" کے لیے موزوں ہوتو ضرور شائع کیجئے۔جزاکم اللہ خیرا۔

3۔بریلوی دوست کہتاہے کہ محمد بن عبدالوہاب سے پہلے کسی نے قبروں سے اورغائب سے مدد مانگنا شرک نہیں لکھا۔کیا یہ بات درست ہے؟اگر نہیں تو اللہ آپ کو بہترین جزعطا فرمائے۔کم از کم دس قدیم مفسرین  قرآن وحدیث کے حوالہ جات لکھیں جنھوں نے غائب  یا فوت شدہ سے مانگنا شرک  لکھا ہو۔یادرہے کہ اہم مفسرین کے اقوال ہوں۔

4۔حدیث کہ جب تم کسی ویران جگہ پر ہوتو تمہاری سواری گم ہوجائے تو پکارو(اے اللہ کے بندو میری مدد کرو) اس کی سند اگرضعیف ہے(تو) ثابت کریں،تمام طرق  کے بارے میں بتائیں۔جن محدثین نے اسے ضعیف قرار دیاہے۔ان کے اقوال باحوالہ بتائیں نیزیہ بھی بتائیں کہ کیا کسی اہم مفسر نے(سوائے غلام رسول سعیدی  بریلوی کے)شارح مسلم،کسی نے اس حدیث سے قبروں یاغائب  سے مدد مانگنا ثابت کیا ہے؟

فضیلۃ الشیخ یہ سوال بہت اہم ہے مفصل جواب دیجئے گا۔اللہ آپ کے علم وعمل میں برکت دے اور دنیا اور آخرت میں آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔(ابوعلی اسد ندیم)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔حافظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  مشہور عالم بلکہ شیخ الاسلام تھے۔ان کا مقلد ہوناقطعاً ثابت نہیں ہے بلکہ حافظ ابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ   لکھتے ہیں:

"ولقد أنكر بعض المقلدين على شيخ الإسلام في تدريسه بمدرسة ابن الحنبلي وهي وقف على الحنابلة ، والمجتهد ليس منهم ، فقال : إنما أتناول ما أتناوله منها على معرفتي بمذهب (أحمد) , لا على تقليدي له"

"اور بعض مقلدین نے شیخ الاسلام(ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ ) پر اعتراض کیا کہ وہ مدرسہ ابن الحنبلی  رحمۃ اللہ علیہ  میں پڑھاتے ہیں حالانکہ یہ مدرسہ حنابلہ پر وقف ہے اور مجتہدان(حنبلیوں ومقلدین) میں نہیں ہوتا،انھوں نے فرمایا:میں اسے احمد(بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ ) کے مذہب کی معرفت پر استعمال کرتا ہوں،میں اس(احمد) کی تقلید نہیں کرتا۔

(اعلام الموقعین 2/241،242 مطبوعہ دارالجیل بیروت لبنان،الرد علی من اخلد الی الارض للسیوطی ص 166)

دلیل دوم:۔

حافظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگرد حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

"الشيخ ، الإمام ، العلامة ، الحافظ ، الناقد ، الفقيه ، المجتهد ، المفسر البارع ، شيخ الإسلام ، علَم الزهاد ، نادرة العصر"

(تذکرۃ الحفاظ 4/1496ت1175)

معلوم ہواکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک مجتہد تھے۔یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ مجتہد تقلید نہیں کرتا۔طحاوی حنفی نے:"طبقة المجتهدين في الشرع كالأئمة الأربعة " کے بارے میں لکھا ہے کہ"وهم غير مقلدين"اور وہ غیر مقلد ہیں۔(حاشیۃ الطحاوی علی الدرالمختار1/51)

ماسٹر محمد امین اکاڑوی دیوبندی حیاتی لکھتے ہیں:

"جو شخص خود مجتہد ہوگا وہ خود قواعد شرعیہ سے مسئلہ تلاش کرکے کتاب وسنت پر عمل کرے گا"(تحقیق مسئلہ تقلید ص5مجموعہ رسائل 1/21مطبوعہ اکتوبر1991ء گوجرانوالہ)

دلیل سوم:۔

کچھ لوگ یہ کہتے رہتے ہیں کہ عوام پر فلاں(مثلاً امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ) یا فلاں کی تقلید  واجب ہے۔ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے حافظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"وأما أن يقول قائل إنه يجب على العامة تقليد فلان أو فلان فهذا لا يقوله مسلم"

" اور اگر کوئی کہنے والا کہے کہ عوام پر فلاں یا فلاں کی تقلید واجب ہے،تو ایسی بات کوئی مسلم نہیں کہتا۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ 22/249)

معلوم ہوا کہ حافظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک کوئی مسلمان بھی وجوب تقلید فلان کا قائل نہیں ہے۔

دلیل چہارم:۔

جو شخص(تقلید کرتے ہوئے)کسی ایک امام کے لیے تعصب کرتا ہے (جیسا کہ آل دیوبند وغیرہ کاطریقہ کار ہے ) تو ایسے شخص کو امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ :

"كالرافضي الذي يتعصب لعلي دون الخلفاء الثلاثة وجمهور ... لواحد منهم أن يكون جاهلًا بقدره في العلم والدين وبقدر الآخرين فيكون جاهلًا ظالماً "

قراردیتے ہیں۔دیکھئے مجموع فتاویٰ(22/252) یعنی ان کے نزدیک ایسا شخص جاہل،ظالم اوررافضیوں کی طرح ہے۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  مقلد نہیں تھے بلکہ مجتہد اور متبع کتاب وسنت تھے۔والحمدللہ۔

2۔حافظ ا بن القیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک مستقل کتاب"اعلام الموقعین"تقلید کے رد میں لکھی ہے۔اس کتاب کانام جلال الدین سیوطی(متوفی 911ھ) ذم الـتـقـلـيـد بتاتے ہیں۔(دیکھئے الرد علی من اخلد الی الارض ص 166)

دلیل پنجم:۔

حافظ ابن قیم الجوزیہ تقلید کے بارے میں فرماتے ہیں:

"وإنما حدثت هذه البدعة في القرن الرابع المذموم على لسانه رسول الله صلى الله عليه وسلم"

"اور یہ بدعت تو چوتھی صدی(ہجری) میں پیدا ہوئی ،جس کی مذمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی (مبارک) زبان سے بیان فرمائی ہے۔

(اعلام الموقعین 2/208)

معلوم ہوا کہ مروجہ تقلید امام ابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک بدعت مذمومہ ہے لہذا ثابت ہوا کہ وہ بذات خود حنبلی مقلد ہرگز نہیں تھے بلکہ مجتہد ومتبع کتاب وسنت تھے۔والحمدللہ۔

فائدہ:۔

دیوبندیوں اور بریلویوں کے بزرگ ملا علی قاری حنفی(متوفی 1014ھ) نے لکھاہے:

"وَمَنْ طَالَعَ شَرْحَ مَنَازِلِ السَّائِرِينَ، تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُمَا كَانَا مِنْ أَكَابِرِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالجَمَاعَةِ، وَمِنْ أَوْلِيَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ"

"اور جو شخص شرح منازل السائرین کا مطالعہ کرے تو اس کے لیے واضح ہوجائے  گا کہ وہ دونوں(ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ ) اہل سنت والجماعت کے اکابر اوراس اُمت کے اولیاء  میں سے تھے۔(جمع الوسائل فی شرح الشمائل 1/207)

3۔میرے علم کے مطابق ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتابوں میں شرک اکبر کاکوئی ثبوت نہیں ہے۔تاہم ابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ  کی ثابت شدہ"کتاب الروح"اور دیگر کتابوں  میں ضعیف ومردود روایات ضرور موجود ہیں۔یہ دونوں حضرات مردوں سے مددمانگنے کے قائل نہیں تھے،رہا مسئلہ سماع موتیٰ کا تو یہ سلف صالحین کے درمیان مختلف فہیا مسئلہ ہے،اس کفر وشرک سمجھنا غلط ہے۔صحیح اور راجح یہی ہے کہ صحیح احادیث سےثابت شدہ بعض مواقع مخصوصہ کے علاوہپ مُردہ کچھ بھی نہیں سنتا۔

آپ کے بریلوی دوست کا یہ دعویٰ کہ"ہمارا عقیدہ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  سے ملتا ہے"

محتاج دلیل ہے۔اس سے کہیں کہ وہ اپنے مشہورعقائد مثلاً وجوب تقلیدابی حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ ،حاضر ناظر،نورمن نور اللہ اور علم الغیب وغیرہ مسائل کا مدلل  دیا حوالہ ثبوت ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  وابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ  سے پیش کرے تاکہ مزید بحث وتحقیق جاری رکھی جاسکے۔

4۔بریلوی دوست سے کہیں کہ وہ محمد بن عبدالوہاب  رحمۃ اللہ علیہ  سے پہلے گزرےہوئے کسی ایک ثقہ ومستند  امام سے صرف ایک حوالہ ثابت کردے کہ قبروں سے مدد مانگناصحیح ہے یا شرک نہیں ہے۔شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب  رحمۃ اللہ علیہ  کی پیدائش سے صدیوں پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ (متوفی 728ھ) نے ایک کتاب"الجواب الباھر فی زوار المقابر" لکھی ہے جس میں قبر پرستوں  کازبردست رد کیاہے۔

جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر کی طرف رخ کرکے سلام(السلام علیک) کی اونچی آوازیں بلند کرتے ہیں ان کے بارے میں ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے:

"وهذه بدعة لم يستحبها احد من علماء"

"بلکہ یہ بدعت ہے،علماء میں سے کسی ایک نے بھی اسے مستحب قرار نہیں دیا۔

(الجواب الباھر ص 9 مطبوعہ:الریاض ،جزیرۃ العرب/السعودیہ)

جولوگ قبروں پر جاکر انھیں پکارتے ہیں:

"ويدعونه ويحبونه مثل ما يحبون الخالق" 

انھیں ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے"اهل الشرك"قراردیا ہے۔(الجواب الباھر ص 21)

یہ ساری کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے قبر پرستی کو شرک کا پہلا سبب "أول ظهور الشرك وأول ما ظهر الشرك في قوم نوح" قرار دیاہے۔(الجواب الباھر ص12)

شیخ الاسلام سے صدیوں پہلے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر کو چھوٹا مکرو سمجھتے تھے۔روایت میں آیا ہے:

" أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَكْرَهُ مَسَّ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "

"بے شک ابن عمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر کو چھونا مکروہ سمجھتے تھے"

(جزء محمد عاصم الثقفی الاصبہانی :27 وسندہ صحیح ابو اسامۃ بری من التدلیس)

فائدہ:۔

ابن قدامہ  الحنبلی  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 620ھ) نے قبروں پر چراغ جلانے سے منع کرتے ہوئے لکھا ہے:

"وافراطا في تعظيم القبور اشبه تعظيم الاصنام"

"اور قبروں کی تعظیم میں یہ افراط ہے ،یہ بتوں کی تعظیم سے مشابہ ہے۔(المغنی 2/193مسئلہ:1594)

سورہ یونس کی آیت(101) کی تشریح  میں مفسر ابن جریر طبری(متوفی 310ھ) فرماتے ہیں:

"يَقُول تَعَالَى ذِكْره : وَلَا تَدْعُ يَا مُحَمَّد مِنْ دُون مَعْبُودك وَخَالِقك شَيْئًا لَا يَنْفَعك فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَة.....الخ "

"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے معبود اور خالق(اللہ) کے علاوہ دنیا وآخرت میں کسی چیز کو بھی(مافوق الاسباب) نہ پکارو.....الخ (تفسیر طبری 11/122)

قدیم مفسرین میں سے صرف اسی ایک ثقہ مفسر کا حوالہ کافی ہے۔جو لوگ قبر  پرستی کو جائز سمجھتے ہیں ان سے مطالبہ کریں کہ صرف ایک قدیم ثقہ مفسر سے قبرپرستی کاجواز ثابت کریں۔

ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے ان لوگوں کو مشرک قرار دیا ہے جو قبر والوں کو(مدد کے لیے)  پکارتے ہیں۔دیکھئے کتاب الرد علی الاخنائی (ص 52) اور مجموع فتاویٰ (27/256)

5۔یہ روایت اپنی مختلف سندوں کے ساتھ  مسند ابی یعلیٰ المعجم الکبیر للطبرانی اور مسند البزار وغیرہ میں موجود ہے۔اس کی تمام سندیں ضعیف ہیں۔

دیکھئے السلسلۃ الضعیفہ للالبانی(2/108۔112ح655،656)

مسند بزاروالی سند شیخ البانی کے نزدیک شاذ ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔حافظ بزار بذات خود متکلم فیہ ہیں۔حافظ دارقطنی نے ان کے بارے میں فرمایا:"

"ثقة، يخطئ ويتكل على حفظه"(سوالات حمزۃ بن یوسف السہمی للدارقطنی :116)

اورفرمایا:

"يخطئ فِي الإسناد والمتن، حدث بالمسند بمصر حفظا، ينظر فِي كتب الناس ويحدِّث من حفظه، ولم تكن معه كتب، فأخطأ فِي أحاديث كثيرة، يتكلمون فيه جرحه ابوعبدالرحمن النسائي"

(سوالات الحاکم للدارقطنی:23)

ابو احمد الحاکم سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: "يخطئ فِي الإسناد والمتن"(دیکھئے لسان المیزان 1/237)

بزارکو خطیب بغدادی،ابوعوانہ صاحب المسند ،وغیرہما نے ثقہ وصدوق قراردیاہے۔

بزار کی معلول روایت کے مقابلے میں بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ انھوں نےفرمایا:

"إِنَّ للهِ عَزَّ وَجَلَّ مَلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ سِوَى الْحَفَظَةِ يَكْتُبُونَ مَا يَسْقُطُ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَإِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ عَرْجَةٌ فِي الْأَرْضِ لَا يَقْدِرُ فِيهَا عَلَى الْأَعْوَانِ فَلْيَصِحْ، فَلْيَقُلْ: عِبَادَ اللهِ، أَغِيثُونَا أَوْ أَعِينُونَا رَحِمَكُمُ اللهُ، فَإِنَّهُ سَيُعَانُ"

(شعب الایمان 6/128 ح 7697 وسندہ حسن موقوف،1/183ح167)

صحابی کے اس قول میں زندہ فرشتوں کو پکارنے کاجواز ہے لہذا یہ پکارنا ماتحت الاسباب ہوا۔اس قول میں مردہ روحوں کو پکارنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے لہذا اسے مافوق الاسباب پکارنےکی دلیل بنا لیناغلط ہے۔

لطیفہ:۔

مسند البزار اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  والی روایت کاایک راوی اسامہ بن زید اللیثی ہیں جو قول راجح میں حسن الحدیث ہیں۔یہ راوی اگر حنفیوں کے مخالف کسی حدیث میں آجائے تو یہ لوگ فوراً اس پر جرح کردیتے ہیں،مثلاً دیکھئےآثار السنن للنیموی(باب ماجاء فی التغلیس ح 213 عن ابی مسعود الانصاری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حاشیہ)

کیاانصاف اسی کا نام ہے؟(25 ذوالقعدہ 1426ھ) (الحدیث:23)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ115

محدث فتویٰ

تبصرے