سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(20) جنات کا وجود ایک حقیقت ہے

  • 20913
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1389

سوال

(20) جنات کا وجود ایک حقیقت ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جنات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟آج کل عموماً کنواری اور خوب  رولڑکی پر جن عاشق ہوجاتے ہیں اور مختلف قسم کے بابے اور پیر ٹونے ٹوٹکے کرتے ہیں،کیا اس قسم کے معاملات نبی آخر الزمان  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں ہوتے تھے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے دور خلافت وحیات میں ہوتے تھے،آیا تاریخ میں کوئی صحیح واقعہ موجود ہے؟(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جنات ایک مستقل مخلوق ہے جس کا وجود انسانوں کے علاوہ ہے اور ان کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے،جیسا کہ قرآن ،حدیث اوراجماع سے ثابت ہے۔

شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"لم يخالف أحد من طوائف المسلمين في وجود الجن "

"مسلمانوں میں سے کوئی گروہ بھی جنات کے وجود کا مخالف نہیں ہے۔(آکالم المرجان لمحمد بن عبداللہ الشبلی ص5)

جنات کے لڑکیوں پر عاشق ہونے کے عام قصے جھوٹ وافتراء پر  مبنی ہوتے ہیں، بعض عورتوں کو ہسٹریا کی بیماری ہوتی ہے جس کے ہذیان میں وہ عجیب وغریب آوازیں اور دعادی ظاہر کرتی ہیں،مقصد صرف معاشقہ یا اپنے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔

پیروں وغیرہ کے ٹونے ٹوٹکے بھی فراڈ اور جادو وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں جن سے کلی اجتناب واجب یعنی فرض ہے ایسے معاملات کا وجود نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں کلیتاً نہیں ملتا اور نہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  یا  تابعین  رحمۃ اللہ علیہ  کے دور میں ایسا واقعہ ہوا ہے۔بعض روایات میں جنات کا انسانی جسم میں داخل ہونے کا صراحتاً ذکر ہے لہذا ان کی اسنادی حیثیت پیش خدمت ہے:

"فرقد السبخي عن سعيد بن جبير عن ابن عباس رضي الله عنه.....الخ"

(مسند احمد1/239،254،268،الدارمی 1/11۔12،ح19 الطبرانی فی الکبیر 12/57 ح12460،دلائل النبوۃ للبیہقی 6/182)

فرقد راوی ضعیف ہے ۔

دیکھئے  تحفۃ الاقوباء فی تحقیق کتاب الضعفاء للبخاری(ص91ت 308) وعام کتب ضعفاء،ایوب السختیانی نے کہا:"لیس بشئی"یہ راوی کوئی چیز نہیں ہے۔(ایضاً)

2۔ "عن إسماعيل بن عبدالملك  عن أبي الزبير،" عن جابر.....الخ"

(السنن الدارمی 1/10 ح 17 وعبد بن حمید:1051 ،ابن ابی شیبہ 11/490۔492ح31745،دلائل النبوۃ لابی نعیم :281،والبیہقی فی الدلائل 6/18،19التمہید 1/223،1224)

اسماعیل بن عبدالملک  جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔(تحفۃ الاقویاء ص 13 ت 18)

"مَعْمَرٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَفْصٍ عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ الثَّقَفِيِّ .....الخ"

(احمد 4/173 ،شرح السنۃ 13/296 ح 3718) معمر نے عطاء کےاختلاط کے بعد ان سے حدیث سنی ہے اور عبداللہ بن حفص مجہول ہے۔(دیکھئے تقریب التہذیب ص171)

شواہد:نمبر1۔:۔

"احمد بن عبدالجبار :حَدَّثَنَا يونس بن بكير، عن الْأَعْمَشُ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ"

(صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی 2/617،618ح4232)

سلیمان الاعمش مدلس تھے اور روایت عن سے ہے۔

ب:۔

"عثمان بن حكيم بن عباد بن حنيف الانصاري عن عبدالرحمان بن عبدالعزيز عن يعلي بن مرة.....الخ"(احمد 4/170)

عبدالرحمان مذکور"ليس بالمشهور" تھا۔(دیکھئے تعجیل المنفعۃ ص 253)

اگر اس سے مراد عبدالرحمان بن عبدالعزیز بن عبداللہ بن عثمان بن حنیف الانصاری الامامی ہو۔تو یہ سند منقطع ہے کیونکہ وہ 162ھ میں  فوت ہوئے اور ان کی عمر 70 سال سے زیادہ تھی یعنی 90ھ میں پیدا ہوئے تھے یعلیٰ بن مرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ان کی ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

4۔ مطر بن عبدالرحمان عن هند ابنة الوازع ...الخ

(احمد کمافی جامع المسانید لابن کثیر 12/246 ،اطراف المسند 5/445ح7519،مجمع الزوائد 9/2 اتحاف المہرۃ لابن حجر 13/656)

ہند ام ابان کی توثیق نامعلوم ہے۔

العجم الکبیر للطبرانی(ج5ص275 ح5314 عن ابی داود:5225،واصلہ عند ابی داود 5225 ومجمع الزوائد 9/2،3) میں ایک دوسری روایت بھی ہے جس کی راویہ ام ابان ہی ہے جو کہ مجہولۃ الحال ہے۔

5۔"عثمان بن ابي العاص...الخ(مجمع الزوائد ٩/٣ وقال :وفيه عثمان بن بسر ولم اعرفه وبقية رجاله ثقات"

یہ سند عثمان بن بسر کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔میرے پاس ان تمام روایات کی مفصل تحقیق کا وقت نہیں البتہ مختصراً عرض ہے کہ میرے علم کے مطابق اس سلسلےکی تمام روایات ضعیف ہیں تاہم یہ صحیح ہے کہ جب شیطان وسوسہ ڈالے تو"اُخرج عدو الله"اے اللہ کے دشمن! نکل جا،کہنا صحیح ہے جیسا کہ سنن ابن ماجہ (کتاب الطب باب الفزع ولارق وما یتعوذبہ ح 3548وسندہ صحیح ولہ شاہد فی صحیح مسلم (2203) سے ثابت ہے۔

(شہادت،جنوری 2002ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ98

محدث فتویٰ

تبصرے