سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19) اہل بدعت کا ذبیحہ

  • 20912
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2680

سوال

(19) اہل بدعت کا ذبیحہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہل کتاب کے علاوہ مشرکین کا ذبیحہ حرام ہے؟پاکستان کے قصابوں کے ذبیحہ کے متعلق کیا حکم ہے؟جبکہ اکثریت قصابوں کی بے دین ہے۔ان آثار کی سند کیسی ہے ؟

1۔سعید بن منصور نے  عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کی ہے کہ سوائے مسلمانوں اور اہل کتاب کے کسی اور کا ذبیحہ مت کھاؤ۔(کشاف القناع6/205)

2۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک مسلمان آدمی ذبیحہ کرتے وقت بسم اللہ  بھول جائے تو؟ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا کہ"وہ ذبیحہ کھا یا جائے گا۔"

سوال ہوا:"اگر مجوسی بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرے تو؟"انھوں نے فرمایا کہ"وہ ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا۔"(المستدرک للحاکم 4/233ح7572)

3۔ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا:تم ایسے علاقے میں آگئے ہو جہاں مسلمان قصاب نہیں ہیں بلکہ نبطی یا مجوسی ہیں لہذا جب گوشت خریدوتو معلوم کیا کرو،اگر وہ یہودی یا نصرانی  کا ذبح کیا ہوا ہوتو کھاؤ،ان کا ذبیحہ اور کھاناتمہارے لیے حلال ہے۔(مصنف عبدالرزاق 4/487ح8578)

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  یا تابعین  رحمۃ اللہ علیہ  میں سے کوئی مشرکین کے ذبیحے کے جواز کا بھی قائل ہے؟براہ مہربانی اس مسئلے کی تفصیلاً راہنمائی فرمائیں۔

اہل کتاب کے علاوہ مشرکین کے ذبیحے کو حرام قرار دینے والوں کے دلائل درج ذیل ہیں:

1۔ذبیحہ کرنا عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ مشرک کی عبادت قبول نہیں کرتا۔

2۔اہل کتاب کے علاوہ مشرکین کے ذبیح کے حرام ہونے پر اجماع ہے(یہ) امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے۔

3۔قرآن مجید میں اہل کتاب کے ذبیحہ کو جائز قرار دیا گیا ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ باقیوں(دوسروں) کاحرام ہے۔ (سیدعبدالسلام زیدی عبدالحکیم ضلع خانیوال)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

﴿فَكُلوا مِمّا ذُكِرَ اسمُ اللَّهِ عَلَيهِ ... ﴿١١٨﴾... سورةالانعام

"جس پر(ذبح کرتے وقت) اللہ کا نام لیا جائے تو اس میں سے کھاؤ۔(الانعام:118)

اس آیت کریمہ اور دیگر دلائل کی رُو سے اس پر اتفاق ہے کہ صحیح العقیدہ مسلمان کاذبح شدہ حلال جانور حلال ہے بشرط یہ کہ وہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لے اور کوئی شرع مانع (رکاوٹ) نہ ہو۔دیکھئے موسوعۃ الاجماع فی الفقہ الاسلامی (2/448)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہاں ایسے لوگ ہیں جو شرک سے نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں،وہ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انھوں نے ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: "سموا الله عليه وكلوا " اس پر اللہ کا نام لے لو اورکھاؤ۔(صحیح البخاری :2057،7398)

اس سے معلوم ہوا کہ اہل اسلام کے ذبیحے کو حسن ظن کی بنیاد پر کھا یا جائے گا اور یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی ہر قصاب سے پوچھتا پھرے کہ آپ نے اس پر اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں؟

اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ذبح شدہ جانور پر اللہ کا نام نہیں لیاگیاتو یہ  ذبیحہ حرام ہے۔

اورارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا تَأكُلوا مِمّا لَم يُذكَرِ اسمُ اللَّهِ عَلَيهِ وَإِنَّهُ لَفِسقٌ ...﴿١٢١﴾... سورةالانعام

"اورجس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ اور بےشک یہ فسق ہے۔(الانعام:121)

اہل کتاب(یہودونصاریٰ) اگر حلال جانورپر اللہ(خدا) کا نام لے کر ذبح کریں تو یہ جانور حلال ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم﴾

"اور اہل کتاب کاکھانا تمہارے لیے حلال ہے"(المائدۃ:5)

اس آیت کی تشریح میں اہل سنت کے مشہور امام ابن جریرطبری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:اور اہل کتاب،یہود ونصاریٰ کے ذبیحے تمہارے لیے حلال ہیں۔(تفسیر طبری 6/64)

امام ابن شہاب الزہری نے عرب کے نصاریٰ کے بارے میں فرمایا کہ ان کے ذبیحے کھائے جاتے ہیں کیونکہ وہ اہل کتاب میں سے ہیں اور اللہ کانام لیتے ہیں۔تفسیر طبری(6/65وسندہ صحیح) نیز دیکھئے صحیح بخاری(قبل ح5508)

اس پر اجماع ہے کہ ہر یہودی اور ہر نصرانی کا ذبیحہ حلال ہے۔(بشرط یہ کہ وہ اللہ کا نام لے)دیکھئے تفسیر ابن جریر طبری(6/66)

اس پر اجماع ہے کہ اہل اسلام،یہود اور نصاریٰ کے علاوہ تمام ادیان مثلاً ہندو،بدھ  مذہب اورسکھ وغیرہ کفار ومشرکین کا ذبیحہ حرام ہے اور اس پر بھی اجماع ہے کہ مرتد اور زندیق کا ذبیحہ حرام ہے لہذا مرزائی،بہائی ،نصیری اوردروز وغیرہ مرتدین کے ذبائح حرام ہیں۔

کلمہ گو اور اسلام کے دعویداروں کے دو بڑے گروہ ہیں:

اول:اہل سنت(صحیح العقیدہ لوگ)

دوم:اہل بدعت(بدعقیدہ لوگ)

عقیدے کے لحاظ سے اہل سنت کے دو  گروہ ہیں:

1۔صالح اعمال والے

2۔فاسق وفاجر

اس سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ ترک صلوٰۃ ہے۔بعض علماء کے نزدیک  تارک الصلوٰۃ کافرہے ۔اور بعض اسے فاسق وفاجر کہتے ہیں۔حافظ ابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے کتاب الصلوٰۃ میں فریقین کے دلائل جمع کردیے ہیں ۔محدث البانی  رحمۃ اللہ علیہ  اور بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ تارک الصلوٰۃ کافر نہیں ہے۔محدث عبداللہ  روپڑی  رحمۃ اللہ علیہ  سے پوچھا گیا:"نے نماز کا ذبیحہ مسلمانوں کوکھانا جائز ہے یا نہیں؟"تو انھوں نے جواب دیا:"بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یاسب نمازوں کا کیونکہ:

"مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ"

عام ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر تارک صلوٰۃ کافر ہے رہا بے نماز کا ذبیحہ کا حکم سو وہ اہل کتاب کے حکم میں ہونے کی وجہ سے درست ہوسکتا ہے خواہ نیک ذبح کرنے والا پاس موجود ہو یا نہ،ہاں نیک ہر طرح سے بہتر ہے اور بے نماز جب کافر ہواتو اس کا کھانا مثل عیسائی کے کھانے کے سمجھ لینا چاہیے۔حتی الوسع اس سے پرہیز رکھے عند الضرورۃ کھا لے"(فتاویٰ اہل حدیث ج2 ص 604)

ہمارے استاذ محترم حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:"نے نماز کے متعلق اکثر کہا جاتاہے کہ وہ کافر ہے اگر یہ بات درست ہے تو کیا بے نماز کا ذبیحہ حلال ہے یا حرام؟"تو انھوں نے جواب دیا:"اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿اليَومَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم... ﴿٥﴾... سورة المائدة

"آج حلال ہوئی تم کو سب پاک چیزیں اور اہل کتاب کاکھانا تم کوحلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے"

عام مفسرین نے اس مقام پر طعام کی تفسیر ذبیحہ فرمائی ہے تو جب اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے تو کلمہ پڑھنے والوں کا ذبیحہ بھی حلال ہے خواہ وہ نماز نہ پڑھتے ہوں کیونکہ وہ اہل کتاب تو ہیں ہی ۔ہاں اگر بوقت ذبح غیر اللہ کا نام لیاگیا ہوتووہ ذبیحہ حرام ہے خواہ ذبح کرنے والا پکا نمازی ہی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿وَلا تَأكُلوا مِمّا لَم يُذكَرِ اسمُ اللَّهِ عَلَيهِ وَإِنَّهُ لَفِسقٌ ...﴿١٢١﴾... سورةالانعام

"اورجس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ اور بےشک یہ فسق ہے۔(الانعام:121)

نیز فرمایا:

"وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ"

"اور جس جانور پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا"

1/4/1418ھ"(احکام ومسائل ج1 ص452)

حافظ عبدالمنان حفظہ اللہ سے کسی شخص نے پوچھا:"بازاری گوشت کیسا ہے حلال یا حرام؟جیسا کہ پاکستان کے اکثر قصاب نماز اور دین کے بارہ میں بالکل صفر ہیں اور ان کا عقیدہ تو ماشاء اللہ اور بھی نگفتہ بہ ہوتا ہے کیا ان کا ذبیح مشرک کے زمرہ میں آتا ہے؟"

حافظ صاحب نے جواب دیا:"حلال ہے کیونکہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے اور معلوم ہے کہ اہل کتاب کا فر بھی ہیں اور مشرک بھی۔پاکستان کے قصاب بہرحال اہل کتاب سے اچھے ہی ہیں پھر یہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں مگر ایک شرط ہے کہ بوقت ذبح وہ بسم اللہ واللہ اکبر پڑھتے ہوں غیراللہ کے نام پر ذبح نہ کرتے ہوں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿أَلّا تَأكُلوا مِمّا ذُكِرَ اسمُ اللَّهِ عَلَيهِ ...﴿١١٩﴾... سورة الانعام

"اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر نام نہیں لیاگیا اللہ کا"21/5/1417ھ"(احکام ومسائل 1/452)

اس مسئلے میں راجح یہی ہےکہ جو شخص مطلقاً ہمیشہ کے لیے تارک الصلوٰۃ ہے(کبھی نماز نہیں پڑھتا) تو اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے۔

اہل بدعت:بدعت کی دو بڑی قسمیں ہیں؛

1۔بدعت صغریٰ(غیر مکفرہ وغیر مفسقہ) مثلاً سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو سیدنا عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے افضل سمجھنا۔

2۔بدعت کبریٰ(مکفرہ ومفسقہ)

اس کی دوقسمیں ہیں:

1۔بدعت مکفرہ مثلاً یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن مجید مخلوق ہے۔

2۔بدعت مفسقہ مثلاً صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو  بُرا کہنا۔بدعت کبریٰ کے تحت تمام خوارج،روافض،معتزلہ،جہمیہ اور منکرین حدیث آتے ہیں۔اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات پیش خدمت ہیں:

1۔جو مشرکین ہندومذہب یابدھ مذہب وغیرہما سےتعلق رکھتے ہیں ان کاذبیحہ حرام ہے۔

2۔پاکستان میں جوہندو یا بدھ وغیرہما قصائی ہیں تو ان کا ذبیحہ حرام ہے۔جو مسلمان صحیح العقیدہ قصائی ہیں ان کاذبیحہ حلال ہے۔جو مرتدین وکفار ہیں ان کاذبیحہ حرام ہے اور جو مبتدعین(اہل بدعت) ہیں،اگر وہ اللہ کا نام لے کر حلال  جانور ذبح کریں تو یہ گوشت حلال ہے۔اہل بدعت کی روایات صحیحین میں موجود ہیں مثلاً:

1۔خالد بن مخلد:صحیحین کا راوی خالد بن مخلد ثقہ وصدوق ہے،جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے ۔ابن سعد نے کہا:

"كان منكر الحديث ، مفرطاً في التشيع"

"وہ تشیع میں افراط کرنے والا،منکر حدیثیں بیان کرنے والاتھا۔(طبقات ابن سعد 6/406)

جوز جانی نے کہا:

"كان شتاما معلنا بسوء مذهبه "

 "وہ(صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو) گالیاں دینے والا تھا،اپنے بُرے مذہب کا  اعلان کرنے والا تھا۔(احوال الرجال:108)

2۔علی بن الجعد: صحیح  بخاری کاراوی اور ثقہ عند الجمہور(صحیح الحدیث) تھا۔اس نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بارے میں کہا:

"أخذ من بيت المال مائة ألف درهم بغير حق "

"اس نے بیت المال سے ایک لاکھ درہم ناحق لیے۔اس پر یہ قسم بھی کھاتا تھا۔(تاریخ بغداد11/64 وسندہ حسن)

3۔عباد بن یعقوب:صحیح البخاری کا راوی اور موثق عندالجمہور(حسن  الحدیث) تھا۔

امام ابن خزیمہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"حدّثنا عَبّاد بن يعقوب المُتّهم في رأيه الثقة في حديثه"

ہمیں عباد بن یعقوب نے حدیث سنائی،وہ اپنی رائے میں مہتم تھا  اور اپنی حدیث  میں ثقہ تھا۔(صحیح ابن خذیمہ :1497)

یہ تشیع میں غالی تھا اور سلف(صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین  رحمۃ اللہ علیہ ) کو گالیاں دیتا تھا۔

دیکھئے الکامل لابن عدی(4/653ا(5/559)

حافظ ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:

"وكان رافضياً داعية إلى الرفض"

اور وہ رافضی تھا(اور) رافضیت کی طرف دعوت دیتا تھا۔(المجروحین 2/172)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا: "صدوق رافضى"(تقریب التہذیب:3153)

جب اہل بدعت"ثقة وصدوق عند الجمهور" کی روایات مقبول ہیں تو ان کا ذبیحہ بھی حلال ہے۔حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  کیا  خوب فرماتے ہیں:

"فلنا صدقه و عليه بدعته"پس اس کی سچائی ہمارے لیے ہے اور اس کی بدعت اسی پر(وبال) ہے۔(میزان الاعتدال 1/5 ترجمۃ ابان بن تغلب)

3۔جس قصاب کو آپ مرتد،کافر یامشرک سمجھتے ہیں  اور اس کا آپ کے پاس واضح ثبوت بھی ہے تو اس کا ذبیحہ نہ کھائیں۔رہے اہل بدعت تو دلائل مذکورہ کی رُو سے ان کا ذبیحہ حلال ہے۔

4۔سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا اثر،سعید بن منصور سے باسند صحیح متصل نہیں ملا۔بے سند روایتیں مردود ہوتی ہیں۔سعید بن منصور سے لے کر ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تک سند بھی نامعلوم ہے ۔نیزدیکھئے:6۔

5۔اس روایت کی سندضعیف ہے۔اسے ابن جریج نے عمرو بن دینار سے"عن"کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابن جریج مشہور مدلس ہیں۔

6۔حدیث ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  / مصنف عبدالرزاق،اس روایت کی سند میں ابواسحاق السبعی مدلس ہیں اور روایت"عن" سے ہے لہذا یہ سند بھی ضعیف ہے۔

7۔میرے علم کے مطابق صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  وتابعین  رحمۃ اللہ علیہ  میں سے کوئی بھی ہندو مشرکین وغیرہ کے ذبیحے کے جواز کا قائل نہیں ہے۔رہامسئلہ اہل بدعت کا تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  خارجیوں اور خشبیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔(دیکھئے طبقات ابن سعد 1/169،170،حلیۃ الاولیاء1/309 وسندہ صحیح) آپ انھیں سلام بھی کہتے تھے۔(السنن الکبریٰ للبیہقی 3/122،وسندہ صحیح)

آپ مشہور ظالم حجاج بن یوسف جیسے بدعتی کے پیچھے بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔(دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی 3/121،122،وسندہ حسن)

حجاج بن یوسف کے بارے میں حافظ ذہبی  نے کہا:

"وَكَانَ ظَلُوْماً ، جَبَّاراً ، نَاصِبِيّاً ، خَبِيْثاً....."ح

"اور وہ ظالم جبار(اور) ناصبی خبیث تھا۔(سیر اعلام النبلا 4/343)

تنبیہ:۔

واضح رہے کہ راجح یہی ہے کہ بدعت کبریٰ کے مرتکب کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔تفصیلی تحقیق کے لیے دیکھئے راقم الحروف کی کتاب"بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم"

یہ بات بھی دلائل سے معلوم ہوتی ہے  کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ا پنے اس عمل سے رجوع کرلیا تھا کیونکہ ایک دفعہ ایک بدعتی نے آپ کو سلام بھیجا تو آپ نے(اس کی بدعت کی وجہ سے )سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔دیکھئے سنن الترمذی :2152:"ھذا حدین حسن صحیح غریب"وسندہ حسن)

8،ذبیحہ کرنا ایک عمل ہے جس کی مشروعیت کتاب وسنت سے ثابت ہے بعض الناس کا یہ کہنا کہ"ذبیحہ کرنا عبادت ہے"اس کی دلیل مجھے معلوم نہیں ہے۔

9۔اہل کتاب اور اہل اسلام کے سوا تمام مشرکین ومرتدین وکفار کا ذبیحہ بلاشک وشبہ حرام ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہل اسلام(کلمہ گومدعیان اسلام) میں سے اہل بدعت کا ذبیحہ  حرام ہے۔

10۔یہود کے اکہتر اور نصاریٰ کے بہتر فرقے ہوئے جنھیں اہل کتاب سے خارج نہیں کیا گیا اور اسی طرح امت مسلمہ کے تہتر فرقے ہیں جن میں سے بہترفرقوں کی تکفیر کرنا اور اور اُمت مسلمہ سے خارج قرار دینا غلط ہے۔بس صرف یہ کہہ دیں کہ یہ فرقے گمراہ ہیں اور اہل بدعت میں سے ہیں یا ان  کے عقائد کفریہ وشرکیہ ہیں۔ان تمام فرقوں کے ہرہر شخص کو متعین کرکے،بغیراقامت حجت کے کافر مشرک یا مرتد قرار دینا غلط ہے۔

اس ساری بحث کا خلاصہ درج ذیل ہے:

1۔کفار ومرتدین مثلاً ہندو،بدھ مذہب والوں،مرزائیوں اور تحریف قرآن کا عقیدہ رکھنے والوں کا ذبیحہ حرام ہے۔

2۔اہل بدعت کلمہ گو فرقوں کا ذبیحہ حلال ہے بشرط یہ کہ وہ دین اسلام کے کسی ایسے عقیدے یا عمل کا انکار  نہ کریں جو ضروریات دین میں سے ہے ۔

3۔جس طرح اہل کتاب کے اکہتر یا بہتر فرقے اہل کتاب کے عمومی حکم میں شامل ہیں،اسی طرح اہل اسلام کے تہتر فرقے(جن میں فرقہ ناجیہ طائفہ منصورہ بھی شامل ہے)اہل اسلام کے عمومی حکم میں شامل ہیں۔

4۔اہل بدعت سے محدثین کرام کا اپنی کتب صحاح میں روایات لینا اس بات کی دلیل ہے کہ ان لوگوں کا ذبیحہ حلال ہے۔

5۔بہتر یہی ہے کہ کسی صحیح العقیدہ مسلمان بھائی کا ذبیحہ کھایا جائے۔

6۔موجودہ دور میں اہل سنت کی طرف منسوب دو بڑے فرقوں آل دیوبند اور آل بریلی کےعام عقائد ایک جیسے ہیں۔ان میں سے ایک فرقے کا ذبیحہ کھانا اور دوسرے کا ذبیحہ نہ کھانا کسی واضح دلیل سے ثابت نہیں ہے ۔

محمد یوسف لدھیانوی دیوبندی لکھتے ہیں:"میرے لیے دیوبندی بریلوی اختلاف کا لفظ ہی موجب حیرت ہے۔آپ سن چکے ہیں کہ شیعہ سنی اختلاف تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو ماننے یانہ ماننے کے مسئلہ پر پیدا ہوا،اور حنفی وہابی اختلاف ائم ہدیٰ کی پیروی کرنے نہ کرنے پر پیدا ہوا۔لیکن دیوبندی بریلوی اختلاف کی کوئی بنیاد میرے علم میں نہیں ہے۔"(اختلاف اُمت اور صراط مستقیم ص25)

7۔طرح تکفیری  فتوے جاری کرتا نہ پھرے۔ان اہل بدعت میں سے ایسے سادہ ہیرے بھی ملتے ہیں جنھیں جب کتاب وسنت کی دعوت پہنچتی ہے تو والہانہ انداز میں لبیک کہتے ہوئے دین اسلام کے لیے اپنی جانیں اور مال قربان کردیتے ہیں۔

8۔اس امت میں سب سے بُرے لوگ خوارج اہل تکفیر ہیں،ان سے ہر وقت اجتناب کرنا(یعنی بچنا)چاہیے،مرجئہ اور جہمیہ سے بھی دور رہیں۔

9۔صحیح العقیدہ اہل حدیث(اہلسنت) علماء سے ہر مسئلے میں مکمل رابطہ رکھیں۔

10۔سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام   اورعزیز کو اللہ کابیٹا کہنے والوں کا ذبیحہ حلال ہے تو ان کلمہ گو اہل اسلام کا ذبیحہ کیوں حلال نہیں ہے جنھیں علمائے حق نے متفقہ طور پر کفار ومرتدین اور مشرکین کے حکم میں شامل نہیں کیا؟وما علینا الا البلاغ(22 دسمبر 2006ء)(الحدیث:33)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ90

محدث فتویٰ

تبصرے