السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کچھ لوگ قطب اور ابدال کے وجود پر حدیث پیش کرتے ہیں۔یہ حدیث کہاں ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے؟ (سیدعبدالناصر،ضلع مردان)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سنن ابی داود(کتاب المہدی باب1ح4286)اورمسنداحمد(ج2 ص316) میں ہے کہ:
"فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَيُبَايِعُونَهُ...الخ"
"پھر جب لوگ یہ دیکھیں گےتو اس کے پاس شام کے ابدال اور عراق کی ٹولیاں آکر اُس کی بیعت کریں گی۔الخ)
اس کی سند قتادہ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔"صاحب لہ" بھی مجہول ہے۔
مسند احمد(ج5 ص 322) کی ایک روایت میں ہے کہ:
"الأبدال في هذه الأمة ثلاثون...الخ"
"اس اُمت میں تیس ابدال ہیں۔۔۔الخ"
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو "منکر" کہا ہے۔اس کے راوی حسن بن ذکوان سخت مدلس تھے اور عن سے روایت کی ہے ۔عبدالواحد بن قیس ضعیف علی الراجح راوی ہے۔
نیز سیدنا عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کی ملاقات بھی ثابت نہیں۔یعنی یہ سند ضعیف ہی ضعیف ہے۔
مسنداحمد(ج 1ص 112)میں ہے کہ:
"الأبدالُ يكونونَ بالشَّام....الخ"
"ابدال شام میں ہوں گے۔۔۔الخ"
اس کی سند انقطاع کیوجہ سے ضعیف ہے۔شریح بن عبید کی سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔دیکھئے تعلیق الشیخ احمد شاکر علی المسند(ج2ص171)
"وقال ابن عساكر:"هذا منقطع" "اور ابن عساکر نے کہا:یہ منقطع ہے"(الحاوی للفتاوی 2/242)
معلوم ہوا کہ ابدالی والی تمام روایات ضعیف ومردود ہیں۔بعض علماء کا یہ قول کہ"فلاں شخص ابدال میں سے تھا"کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے اور نہ اس سے صوفیوں والے ابدال مراد ہیں۔ اس لیے:
"نظم اللآل في الكلام على الأبدال"
اور
"الخبر الدال على وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال"
جیسی کتابیں لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
"ثَبِّتِ العَرْشَ ثُمَّ انْقُشْ""پہلے تخت کو ٹھہرائیں پھر نقش نگاری کریں"
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نےسیف بن عمر(کذاب) وغیرہ کی روایات جمع کرکے ابدال وغیرہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔(دیکھئے الحاوی للفتاویٰ ج 2 ص 242)
قطب اقطاب والی ایک روایت بھی نہیں ملی۔
علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"ومن ذلك أحاديث الأبدال والأقطاب والأغواث والنقباء والنجباء والأوتاد كلها باطلة على رسول الله صلى الله عليه وسلم"
اوراس میں سے ابدال،اقطاب(جمع قطب)،اغواث(جمع غوث) ،نقباء(جمع نقیب)،نجباء(جمع نجب) اور اوتاد(جمع وتد) کی تمام احادیث باطل ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف انھیں باطل طور پر منسوب کیاگیاہے۔(المنارالمنیف ص 136 فقرہ:307)
اسے ملا علی قاری نے بھی الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعہ(ص 470) میں نقل کیا ہے۔(شہادت،دسمبر 2001ء)
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :فتنہ ہوگا ،اس میں لوگ اس طرح تپیں گے جس طرح سونا بھٹی میں تپتا ہے۔لہذا اہل شام کو بُرا نہ کہو کیونکہ اُن میں ابدال ہیں اور شامی ظالموں کو بُرا کہو۔۔۔پھر لوگ قتال کریں گے اور انھیں شکست ہوگی پھر ہاشمی ظاہر ہوگا تو اللہ تعالیٰ انھیں دوبارہ باہم شیروشکر بنا دے گا اور اپنی نعمتوں کی فراوانی فرمادے گا پھر لوگ اسی حالت پر ہوں گے کہ دجال کاخروج ہوگا۔
(المستدرک للحاکم 4/553ح 8658 وسندہ صحیح وصححہ الحاکم ووافقہ الذہبی)
اس موقوف صحیح روایت میں ابدال کا ذکر ملتا ہے لیکن یہاں ابدال سے مراد نیک اور صحیح العقیدہ لوگ ہیں ،نہ کردینا کانظام بدلنے یا چلانے والے لہذا اہل بدعت کاابدال والی روایات سے نیک لوگوں کے بارے میں الوہیت اورربوبیت والے عقائد گھڑنا باطل ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب