سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(2) اللہ کی معیت وقربت سے کیا مرُاد ہے؟

  • 20895
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1415

سوال

(2) اللہ کی معیت وقربت سے کیا مرُاد ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہل حدیث اللہ کو عرش پر مانتے ہیں اور "مَعَكُمْ" اور" إِنِّي قَرِيبٌ سے متعلق کہتے ہیں کہ"معیت وقربت" سے مراد اللہ کاعلم ،قدرت،سماعت وبصارت ہے کیا یہ تاویل نہیں ہے؟بعض سعودی علماء مثلاً شیخ(محمد بن) صالح العثمین  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ اور بعض پاکستانی سلفی علماء کہتے ہیں کہ ہم"استوی" کو بلاکیف مانتے ہیں اسی طرح"معیت وقربت" کو بھی بلاکیف مانتے ہیں جس طرح اللہ کی شان کے لائق ہے وہ مستوی ہے اور جس طرح اس کی شان کے لائق ہے وہ ساتھ بھی ہے قریب بھی ہے۔ہم کوئی تاویل نہیں کرتے۔اللہ کی صفات والی آیات متشابہہ ہیں ہم ان میں سے کوئی غورفکر وتاویل نہیں کرتے جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے ویسے ہی اس کی صفات ہیں۔محترم! دلائل کے ساتھ وضاحت فرمائیں۔(سلیم اختر،کراچی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مقاتل بن حیان(النبطی المفسر) نے وَهُوَ مَعَهُمْ کی تشریح میں فرمایا:

"علمه"اس کا علم ہے۔(الاسماء والصفات للبیہقی ص431 وفی نسخہ ص 542 وسندہ حسن)

ضحاک بن مزاحم الفسر نے فرمایا: وعلمه مَعَهُمْ اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (مفسر قرآن) سے مروی ہے:

"هو فوق العرش ، وعلمه معهم" وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے۔(تفسیر ابن ابی حاتم بحوالہ شرح حدیث النزول لابن تیمیہ ص 126)

ان روایات کے  راوی بکیر بن معروف(مفسر) حسن الحدیث تھے۔امام نسائی  رحمۃ اللہ علیہ  اور جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے ،ان پر احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  کی طرف منسوب جرح تہذیب الکمال للمزی میں بے سند ہونے کی وجہ سے ثابت نہیں ہے،جبکہ خودامام احمد سے ان کی توثیق ثابت ہے۔(دیکھئے معرفۃ العلل والرجال:2503)

ابن المبارک کی طرف منسوب جرح عبداللہ بن محمد بن سعدویہ اور احمد بن عبداللہ بن بشیر المروزی کی وجہ سے  ثابت نہیں ہے۔دیکھئے کتاب الضعفاء للعقیلی(ج1 ص152،153)

امام اہل سنت احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے (هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ) کی تشریح میں فرمایا: علمهیعنی اس کا علم ہے۔(شرح حدیث النزول ص 127،نقلہ عن کتاب السنۃ لحنبل بن اسحاق)

سلف صالحین میں سے ان کاکوئی مخالف نہیں ہے،حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ   نے لکھا:

"وقـد ثبت عن السلف أنهم قالوا : هو معهم بعلمه . وقد ذكر ابن عبد البر وغيره أن هذا إجماع من الصحابة والتابعين لهم بإحسان ، ولم يخالفهم فيه أحد يعتمد بقوله"

"اور سلف سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا:وہ(اللہ) بلحاظِ علم ان کے ساتھ ہے اور ابن عبدالبر  وغیرہ نے اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   و تابعین  رحمۃ اللہ علیہ  کا ا جماع نقل کیا ہے،اور اس سلسلے میں کسی قابل اعتمادشخص نے ان کی مخالفت نہیں کی۔(شرح حدیث النزول ص 126)

یہ ظاہر ہے کہ اجماع شرعی  حجت ہے۔تفصیل کے لیے امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب الرسالۃ اور حافظ ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ  کی الاحکام دیکھیں۔

حافظ عبداللہ محدث غازی پوری(1260ھ۔1337ھ) نے فرمایا:"واضح رہے کہ ہمارے مذہب کا اصل الاصول صرف اتباع کتاب وسنت ہے"(ابراء اہل حدیث والقرآن ص 32)

اس پر حافظ صاحب نے خود ہی بطور حاشیہ لکھا ہے کہ"اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہل حدیث کو اجماع وقیاس شرعی سے انکار ہے  کیونکہ جب یہ دونوں کتاب وسنت سے ثابت ہیں تو کتاب وسنت کے ماننے میں ان کا ماننا آگیا۔۔۔الخ"(ایضاً ص 32)

(نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو:1ص4)

یاد رہے کہ "مَعَكُمْ" کامعنی "علمه وقدرته" کرنا تاویل نہیں بلکہ اس کے لغوی معنوں میں سے ایک ہے جیسےکہاجاتاہے:"أذهب أنا معك" جاؤمیں تمہارے ساتھ ہوں۔

جو لوگ"مَعَكُمْ" کو علم وقدرت کے علاوہ کوئی علیحدہ صفت سمجھ بیٹھے ہیں ان کا قول اجماع صحابہ وتابعین ومن بعدھم کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔(شہادت ،فروری 2003ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ31

محدث فتویٰ

تبصرے