سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1) کیا اللہ تعالیٰ ہرجگہ بذاتہ موجود ہے؟

  • 20894
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1331

سوال

(1) کیا اللہ تعالیٰ ہرجگہ بذاتہ موجود ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سورۃ الحدید کی چوتھی آیت کی روشنی میں کہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ،کیا یہ صحیح ہے؟اگر صحیح نہیں تو اس کی کیا دلیل ہے۔؟(عبدالمتین،ماڈل ٹاؤن ،لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿هُوَ الَّذى خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ يَعلَمُ ما يَلِجُ فِى الأَرضِ وَما يَخرُجُ مِنها وَما يَنزِلُ مِنَ السَّماءِ وَما يَعرُجُ فيها وَهُوَ مَعَكُم أَينَ ما كُنتُم وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ بَصيرٌ ﴿٤﴾... سورةالحديد

"وہی ہے جس نے آسمانوں اورزمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا،پھر عرش (بریں) پر متمکن ہوگیا۔وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور(اسے بھی جانتا ہے) جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے،اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو،اور جو کچھ بھی تم کیاکرتے ہو اسے وہ دیکھتا ہوتا ہے ۔(سورۃ الحدید:4،الکتاب/ڈاکٹر محمد عثمان ص324)

اس آیت کریمہ میں"وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ "کی تشریح میں قدیم مفسرِقرآن،امام محمد بن جریر بن یزید الطبری رحمہ اللہ(متوفی 310ھ) فرماتے ہیں:

"وهو شاهد لكم أيها الناس أينما كنتم يعلمكم، ويعلم أعمالكم، ومتقلبكم ومثواكم، وهو على عرشه فوق سمواته السبع"

"اور اے لوگو! وہ(اللہ) تم پر گواہ ہے ،تم جہاں بھی ہووہ تمھیں جانتا ہے،وہ تمہارے اعمال،پھرنا اور ٹھکانا جانتا ہے اور وہ اپنے سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہے۔(تفسیر طبری ج27 ص 125)

اسی مفہوم کی ایک آیت کریمہ کے بارے میں مفسر ضحاک بن مزاحم الہلالی الخراسانی رحمہ اللہ (متوفی 106ھ) فرماتے ہیں:

"هُوَ فَوْق الْعَرْش وَعِلْمه مَعَهُمْ  أَيْنَمَا كَانُوا "

"وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان(لوگوں) کے ساتھ ہے چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں۔(تفسیر طبری ج28 ص10 اوسندہ حسن)

امام مقری محقق محدث اثری ابو عمر احمد بن محمد بن عبداللہ الاندلسی  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 429ھ) فرماتے ہیں:

"اہل سنت مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ:

﴿وَهُوَ مَعَكُم أَينَ ما كُنتُم...﴿٤﴾... سورةالحديد

وغیرہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ:

"أنه علمه ، وأن الله تعالى فوق السموات بذاتـه مستو على عرشه كيف شاء"

"بےشک ا س سے اللہ کا علم مراد ہے،اللہ اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں پر،عرش پر مستوی ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔(شرح حدیث النزول لابن تیمیہ ص 144،145)

اس اجماع سے معلوم ہوا کہ بعض الناس کا اس آیت کریمہ سے یہ مسئلہ تراشنا کہ"اللہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے۔"غلط اور باطل ہے لہذا کتاب وسنت اور اجماع کے مخالف ہونے کیوجہ سے مردود ہے۔

مسئولہ آیت کریمہ میں" يَعلَمُ " کالفظ بھی بالکل واضح اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں معیت سے علم وقدرت مراد ہے۔تفصیل کے لیے دیکھئے ہمارے استاذ محترم شیخ بدیع الدین الراشدی رحمہ اللہ کی کتاب"توحید خالص"(ص277) حارث بن اسد المحاسبی  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 243ھ) فرماتے ہیں:" وكذلك لا يجوز.....الخ" اور اسی طرح یہ کہناجائز نہیں ہے کہ۔۔۔اللہ زمین پر ہے۔(فہم القرآن ومعانیہ،القسم الرابع،باب ما لا یجوز فیہ النسخ)

حافظ ابن الجوزی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"(جہمیہ کے فرقے) ملتزمہ نے باری تعالیٰ کو ہرجگہ(موجود) قرار دیاہے۔"(تلبیس ابلیس ص30،راقم الحروف کی کتاب: بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم ص 19)

شیخ عبدالقادر جیلانی  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:"اور یوں کہنا جائز نہیں کہ وہ(اللہ) ہرمکان میں ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ  آسمان میں عرش پر ہے۔"(غنیۃ الطالبین ج1ص 100) نیزد یکھئے الحدیث :10ص43،46۔(الحدیث :24)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ29

محدث فتویٰ

تبصرے