سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(72) اپریل فول کی شرعی حیثیت

  • 20888
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-31
  • مشاہدات : 1169

سوال

(72) اپریل فول کی شرعی حیثیت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اپریل فول کا صحیح مفہوم کیا ہے نیز اس کا شرعی حکم واضح کریں؟(ابو الحسین ،منڈی بہاؤالدین )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اپریل فول(APRIL FOOL)کا شرعی حکم معلوم کرنے سے پہلے اس کا مفہوم سمجھ لینا ضروری ہے اپریل انگریزی سال کا چوتھا مہینہ ہے یہ لفظ لاطینی زبان کا لفظ ہے(APrilis)اپر یلیس یا(APerire)ایپریر سے ماخوذ ہے۔یہ لفظ موسم بہار کے آغاز ،پھولوں کے کھلنے اور نئی کو نپلیں پھونٹنے کے موسم کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔اور(FOOL)فول بے وقوفی ، حماقت  اور جھوٹ کے لیے مستعمل ہے۔ اپریل فول کا مفہوم یہ ہوا کہ اپریل کی یکم تاریخ کو وہ لوگ جھوٹ بول کر استہزاء و مذاق کیا کرتے تھے۔اس کی مختلف توجیہات کی جاتی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ فرانس میں سال کی ابتداء جنوری کی بجائے اپریل سے ہوتی تھی جب فرانس میں تاریخی کیلنڈر تبدیل کیا گیا اور 1564ءمیں نیا کیلنڈر جاری کیا گیا تو جو لوگ اس نئے کیلنڈر کو تسلیم نہیں کرتے تھے اس کی مخالفت کرتے تھے انہیں طعن وتشنیع ، مذاق ، ٹھٹھا اور استہزا ء کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور ان کے ساتھ انتہائی برے طریقے سے پیش آیا جاتا تھا۔

اپریل فول کا ذکر سب سے پہلے ڈریک نیوز لیٹر(Drak New Letter)اخبار میں ملتا ہے۔ مذکورہ اخبار نے دواپریل 1968ء کی اشاعت میں لکھا کہ کچھ لوگوں نے یکم اپریل کو لندن ٹاور میں شیروں کے غسل کا عملی مشاہدہ کرانے کا اعلان کیا۔

یکم اپریل کو یورپ میں ہونے والے مشہور واقعات میں سب سے اہم اور مشہور یہ واقعہ ہے جو ایک انگریزی اخبار الفینج سٹار نے 31مارچ 1846ءکو اعلان کیا کہ یکم اپریل کو اسلنجنون (شہر کا نام )کے زراعتی فارم میں گدھوں کی عام نمائش اور میلہ ہوگا۔ لوگ انتہائی شوق سے لپک لپک کر آئے۔ جمع ہوئے اور نمائش کا انتظار کرنے لگے ۔ جب وہ انتظار میں تھک کر چور ہوگئے تو انھوں نے پوچھنا شروع کیا کہ میلہ کب شروع ہوگا؟ مگر انہیں کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔آخر کار انہیں بتایا گیا کہ جو لوگ نمائش دیکھنے میلے میں آئے ہیں وہ خود ہی گدھے ہیں۔(ماخوذاز :"اپریل فول کی تاریخی و شرعی حیثیت")

مذکورہ بالا توضیح  سے معلوم ہوا کہ اپریل فول یہودیوں و عیسائیوں کی جاری کردہ قبیح رسم ہے جس میں جھوٹ پر مبنی خبریں دے کر لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے۔بسااوقات جھوٹی خبر دینے سے معاشرے میں بگاڑو فساد حتیٰ کہ قتل و غارت کی نوبت آجاتی ہے اور جھوٹ  قرآن و سنت کی روسے حرام قطعی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق ارشاد فرمایا:

﴿وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ بِما كانوا يَكذِبونَ ﴿١٠﴾... سورةالبقرة

"اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔"

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کا وصف جھوٹ بولنا ذکر کیا ہےاور اس پر انہیں عذاب الیم کی بشارت دی ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے:

"وعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :( أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا ، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا : إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ)

(بخاری کتاب الایمان باب بیان خصال المنافق 2/46مع شرح نووی)

"عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:چار خصلتیں جس آدمی میں ہوں، وہ خالص منافق ہے اور جس ان چار میں سے ایک خصلت ہو، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑدے۔

1۔جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔

2۔اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔

3۔اور جب عہد کرے تو عہد شکنی کرے۔

4۔اور جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔"

اس حدیث صحیح سے بھی معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنا شرعاً ناجائز و حرام ہے اور نفاق کی خصلتوں میں سے ایک خصلت ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يَكُونَ صِدِّيقًا وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا"

(بخاری کتاب الادب باب يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ وما ینھی عن الکذب (6094)مسلم کتاب البرولصلۃ باب مع قبح الکذب وحسن الصدق و فضلۃ (2607)مسند احمد 1/393،439،440)

"یقیناً سچ نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور بے شک آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ صدیق بن جاتا ہے اور یقیناً جھوٹ برائی کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور برائی آگ کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور بے شک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ اللہ کے ہاں کذاب لکھا جاتا ہے۔"

سمرہ جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

"رأيت الليلة رجلين أتياني قالا: الذي رأيته يشق شدقه فكذاب يكذب بالكذبة تحمل عنه حتى تبلغ الآفاق، فيصنع به هكذا إلى يوم القيامة "(بخاری کتاب الادب (6096)

"میں نے گزشتہ رات خواب میں دیکھا دو فرشتے میرے پاس آئے ان فرشتوں نے کہا جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کے جبڑے چیرے جا رہے تھے۔وہ دنیا میں بہت جھوٹ بولنے والا تھا جو جھوٹ بات کہہ دیتا۔ سارے ملک میں پھیل جاتی۔ قیامت تک اس کو یہی سزا ملتی رہے گی۔"

حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

( دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ ، فَإِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِينَةٌ ، وَإِنَّ الْكَذِبَ رِيبَةٌ )

(مسند احمد یعلیٰ 12/62،67،حلیلۃ الاولیاء8/264،بیہقی کتاب البیوع 5/335

مسند طیالس (1291)ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ (2518)نسائی کتاب الاشربۃ،8/327،328،)

"مشکوک بات کو ترک کر کے غیر مشکوک کو اختیار کر۔ یقیناً سچائی میں اطمینان اور جھوٹ میں بے سکونی و تردوہے۔"

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"((ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمْ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ، شَيْخٌ زَانٍ، وَمَلِكٌ كَذَّابٌ، وَعَائِلٌ مُسْتَكْبِرٌ)) "

(مسند یعلیٰ 11/1197،مسلم کتاب الایمان باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار(107)مسند ابی عوانہ 1/40،بیہقی 8/161،مسند احمد2/480،نسائی کتاب الزکاۃ 5/86)

"تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرے گا اور نہ ہی قیامت کے دن ان کی طرف نظر رحمت کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

(1)جھوٹا حاکم(2)تنگ دست تکبر کرنے والا(3)بوڑھا زانی۔"

ان احادیث صحیحہ سے جھوٹ کی مذمت معلوم ہوئی کہ جھوٹا آدمی جب جھوٹ بولتا رہتا ہے تو اللہ کے ہاں کذاب لکھا جاتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور جھوٹ سے اطمینان نصیب نہیں ہوتا بلکہ بے سکونی اور تردو رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر مباہلہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

﴿فَنَجعَل لَعنَتَ اللَّهِ عَلَى الكـٰذِبينَ ﴿٦١﴾... سورةآل عمران

"ہم جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں ۔"

علاوہ ازیں سابقہ اقوام کی صفات رذیلہ میں سے جھوٹ کا ذکر قرآن حکیم نے بالخصوص کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنا شرعاً حرام ہے اور اپریل فول کی بنیاد ہی جھوٹ ہے۔ لہٰذا یہ شرعاً حرام ہے۔

اور یہ یہودو نصاریٰ کی عادات قبیحہ میں سے ایک عادت ہے جسے اپنانایہود کی تقلید اور ان کے ساتھ مشابہت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہودو نصاریٰ کے ساتھ مشابہت سے کئی مواقع پر منع فرمایا:عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ )

(مسند احمد2/49(5115)مشکوۃ کتاب اللباس (4347)بتحقیق شیخ الہانی حفظہ اللہ )

" جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔"اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:

﴿وَلَن تَرضىٰ عَنكَ اليَهودُ وَلَا النَّصـٰرىٰ حَتّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُم قُل إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الهُدىٰ وَلَئِنِ اتَّبَعتَ أَهواءَهُم بَعدَ الَّذى جاءَكَ مِنَ العِلمِ ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلا نَصيرٍ ﴿١٢٠﴾... سورة البقرة

"آپ سے یہود ونصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اورنہ مددگار"

مندرجہ بالا آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ شریعت اسلامیہ میں جھوٹ بولنا حرام ہے اور یہ یہودو نصاریٰ کا طریق و راستہ ہے لہٰذا اپریل فول شرعاً حرام ہے اور یہودو نصاریٰ کی عادات قبیحہ اور رسم شنیعہ سے ہے اس پر چلنا یہودی و نصاری کے طرز کو اپنانا ہے جو کسی بھی مسلم کے لیے روا اور درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اخلاق رذیلہ اور عادات قبیحہ سے ہر مسلمان عورت، مرد ، چھوٹے ،بڑے کو محفوظ فرمائے۔ آمین۔

         
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الادب۔صفحہ نمبر 562

محدث فتویٰ

تبصرے