سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(69) کیا دو بھائی بھی اکٹھے نہیں سو سکتے؟

  • 20885
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4434

سوال

(69) کیا دو بھائی بھی اکٹھے نہیں سو سکتے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بچے جب شعور کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے بسترجداجدا کرنے چاہئیں یا کہ وہ اکٹھے ایک ہی بستر پر سو سکتے ہیں۔ پہلے تو یہ سنتے تھے کہ کوئی مرد کسی مرد کے ساتھ یا کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہیں سو سکتے اور کیا دو بھائی بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔اسی طرح کیا دو بہنیں بھی اکٹھی نہیں سو سکتیں؟ قرآن وسنت کی روسے وضاحت فرمائیں۔(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام انتہائی صاف ستھرا اور پاکیزہ دین ہے۔اس کے احکامات انتہائی عمدہ،تقوی،للہیت،خوف باری تعالیٰ اور پاکیزگی پر مبنی ہیں۔اسلام جہاں ظاہری گندگی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ایسے انتظامات مسلم معاشرے کو دیتا ہے جس سے ہر فرد کی روحانی تربیت بھی ہوتی ہے چونکہ شیطان اور اس کے کارندےہمہ وقت اپنے کام میں مصروف ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے نکال کر اسے نا فرمانی اور برے اعمال میں پھنسا دیا جائے اللہ تعالیٰ نے والدین  کے لیے جہاں انہیں خود گناہ کے کاموں سے بچنے کی تلقین کی ہے وہاں پر ان کے بچوں کے لیے بھی احکامات صادر فرمائے ہیں اور ارشاد فرمایا ہے۔کہ:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارًا وَقودُهَا النّاسُ وَالحِجارَةُ عَلَيها مَلـٰئِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعصونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُم وَيَفعَلونَ ما يُؤمَرونَ ﴿٦﴾... سورةالتحريم

"اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں"

اس آیت کریمہ میں اللہ نے مومنین کو خطاب کرتے ہوئے جہاں انہیں خود جہنم سے بچنے کا امر فرمایا ہے وہاں انہیں اپنے گھر کی طرف بھی توجہ دلائی ہے لہٰذا والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسی ہر حرکت سے بچانے کی کوشش کریں جو اسلام کے منافی ہو۔اسلام نے بچوں کو شر سے بچانے کے لیے کئی ایک اقدامات کئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ بچہ جب 10سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اسے الگ بستر کرکے دیا جائے تاکہ وہ ابتدا ء سے ہی شیطانی حرکات سے محفوظ رہے۔رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

(مُرُوا أَوْلادَكُمْ بِالصَّلاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ )

(ابن ابی شیہ1/137/2ابو داؤد (4965،496)دارقطنی(85)مستدرک حاکم1/197بیہقی 2/84مسند احمد 2/187شرح السنہ(505)

"اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو۔ جب وہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں اور جب وہ دس سال کی عمرکو پہنچیں تو انہیں نماز کے ترک پر مارو اور ان کے بستر الگ کر دو۔"

علامہ محمود محمد  رحمۃ اللہ علیہ  ابو داؤد کی شرح میں رقم طراز ہیں کہ: "ان کے بستر جدا جدا کر دو کا مطلب یہ ہے کہ ان کے سونے کی جگہیں الگ الگ بناؤ۔اس لیے جب وہ 10سال کو پہنچتے ہیں تو بلوغت کی ادنیٰ حد تک قریب ہو جاتے ہیں۔ان کی شہوت زیادہ ہو جاتی ہے اور ان پر فساد و خرابی کا ڈر ہوتا ہے۔یہ اس بات پر دلالت ہے کہ ولی پر واجب ہے کہ وہ بچوں کے درمیان سونے کی جگہوں میں تفریق ڈال دے۔اگرچہ وہ بھائی ہی کیوں نہ ہوں جب وہ دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں۔"(المنہل العذب المورد45۔122)

 علامہ مناوی جامع صغیر کی شرح میں فرماتے ہیں :

"أي فرقوا بين أولادكم في مضاجعهم التي ينامون فيها إذا بلغوا عشرًا، حذرًا من غوائل الشهوة وإن كن أخوات"

(فتح الباری الجامع الصغیر بحوالہ عون المعبود 1/158)

"جب تمھاری اولاد دس برس کی عمر کو پہنچ جائے تو ان کے وہ بستر جہاں وہ سوتے ہیں۔جداجداکر دو شہوت کی مصیبتوں سے ڈرتے ہوئے اگرچہ دو بہنیں ہی ہوں۔"

امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  اپنی السنن الکبری رحمۃ اللہ علیہ  میں۔

"باب ما على الآباء والأمهات من تعليم الصبيان أمر الطهارة والصلاة"

(باپوں اور ماؤں پر بچوں کی تعلیم میں پاکیزگی اور نماز سے جو لازم ہے)کے تحت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بسند قوی روایت لائے ہیں کہ انھوں نے فرمایا:

(حَافِظُوا عَلَى أَبْنَائِكُمْ فِي الصَّلاَةِ ،ثُمَّ تَعَوَّدُوا الْخَيْرَ ،فَإِنَّمَا الْخَيْرُ بِالْعَادَةِ ). (بیہقی :3/84)

"اپنے بچوں کی نماز کے بارے میں حفاظت کرو پھر انہیں خیر کی عادت ڈالو اس لیے کہ خیر عادت کے ذریعے آتی ہے۔

یعنی جب بچوں کو نیکی و بھلائی کی تم عادت ڈالوں گے تو یہ نیکی و بھلائی ان میں مستقل قائم ہوگی۔کیونکہ جب کسی کام کی عادت پڑجاتی ہے تو انسان اس کو جلدی ترک نہیں کرتا۔اس لیے بچوں کو ابتداء سے ہی اچھی باتوں کی طرف توجہ دلائی جائے تاکہ وہ نماز اور روزہ ، تقویٰ ، پرہیز گاری اور اخلاق حسنہ کے ابتدا سے ہی عادی بن جائیں۔اور شر سے بچے رہیں۔اسی بات کے پیش نظر شریعت اسلامیہ بچوں کو دس سال کی عمر سے ہی الگ الگ بستروں میں سونے کی ہدایت کرتی ہے۔تاکہ وہ اخلاق رذیلہ اور بری عادات میں ملوث نہ ہوں۔سائل نے سوال میں بڑی عمر کے آدمیوں کے بارے میں جو اشارہ کیا ہے وہ بھی اس حدیث کے پیش نظر ہے۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرْأَةُ إِلَى عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ وَلَا يُفْضِي الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَلَا تُفْضِي الْمَرْأَةُ إِلَى الْمَرْأَةِ فِي الثَّوْبِ "(صحیح مسلم ۔266کتاب الحیض (74۔338)

"مرد مرد کے ستر کی طرف نہ دیکھے اور نہ ہی عورت عورت کے ستر کی طرف دیکھے اور مرد مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں جمع نہ ہو اور عورت  عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں جمع نہ ہو۔"

اس میں بھی یہ حکمت پیش نظر ہے کہ مرد و زن برائی سے محفوظ رہیں اور اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے رکھیں۔کیونکہ جب خلوت اور ایک ہی بستر میں انہیں سونے کی جگہ ملے تو شیطانیت کا دروازہ کھلنے میں دیر نہیں لگتی ۔شریعت اسلامیہ نے اس دروازے کو بند کرنے کے لیے یہ تعلیم دی ہے کہ 10 سال(جو شعوری عمر کی ابتداءہوتی ہے)سے ہی یہ پابندی عائد کر دی جائے تاکہ برائی کے راستے مسدود ہو جائیں اس لیے ہمیں اس بات کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے اور اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات سے ہمکنار کرنے کے لیے پوری محنت اور تگ و دو سے کام لینا چاہیے۔(مجلۃ الدعوۃ جون 1997ء)

         
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الادب۔صفحہ نمبر 535

محدث فتویٰ

تبصرے