سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(52) جبری طلاق

  • 20868
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2095

سوال

(52) جبری طلاق
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میاں بیوی میں کسی قسم کی رنجش نہ تھی نہ ہی زندگی میں اس سے پہلے کبھی خاوند نے طلاق کے الفاظ ادا کیے ہیں لیکن ساس اور بہو کا جھگڑا تھا بیوی 6ماہ کی حاملہ (Pregnant)تھی اور میکے میں تھی کہ 12مارچ 1996ءکو میکے میں خاوند کی طرف سے طلاق نامہ آیا۔جس پر 3طلاقیں اکٹھی لکھی تھیں اور خاوند کے دستخط تھے پھر خاوند نے فون کیا کہ وہ طلاق میں نے نہیں دی کیونکہ اسٹام پیپر بھائی نے نکلوائے  اپنی مرضی سے عبارت تحریر کروائی جس کا مجھے کوئی علم نہ تھا اور نہ ہی وہ تحریر مجھے انھوں نے پڑھ کر سنائی لیکن اچانک میرے سامنے پیپرز رکھ کر جبراًمجھ سے سائن کروائے جبکہ نہ میری نیت تھی نہ میں نے منہ سے کہا نہ اپنی مرضی سےتحریر لکھوائی اور اگر ایسا کچھ ہے بھی تو ابھی اس بات کو مہینہ نہیں ہوا اور میں رجوع کرتا ہوں یعنی طلاق کے پہلے ہی ماہ میں رجوع کر لیا تو اس کا کیا حل ہے کیا یہ طلاق ہو گئی یا نہیں۔ جبکہ طلاق 12مارچ کو ہوئی اور بچہ اس کے بعد 3جولائی کو پیدا ہوا اور خاوند نے رجوع کر لیا تھا بیوی کا فقہ حنفیہ سے اور خاوند کا اہلحدیث مسلک سے تعلق ہے۔(1)کیپٹن خامس خان پنی ایچ 9،برٹش ہومزاسلام آباد ۔ چوہدری عقیل احمد کے 11گلشن علی کالونی ڈیفنس روڈ لاہور کینٹ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سائل مذکور کے سوال کی دو شقیں ہیں۔

1۔زبردستی طلاق

2۔رضا مندی سے طلاق

اگر سائل مذکور سے زبردستی طلاق دلوائی گئی ہے تو یہ طلاق شرعاً کالعدم ہے۔ اس کا وقوع نہیں ہوا۔ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ  نے باب طلاق المکرہ والناسی میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إن الله تجاوز لأمتي عما توسوس به صدورها ما لم تعمل، أو تتكلم به، وما استكرهوا عليه "(سنن ابن ماجہ 1/659(2044)

"یقیناً اللہ تعالیٰ نے میری امت کے سینوں کے خیالات و وساس کو معاف کر دیا ہے جب تک وہ ان خیالات کو عملی جامہ پہنا نہیں لیتے یا بات نہیں کر لیتے اور اس بات کو بھی معاف کر دیا ہے جس پر انہیں مجبور کر دیا گیا ہو۔"

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جبراً طلاق دلوانے سے طلاق واقع نہیں ہوتی اسی طرح عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(لا طَلاَقَ ولا عِتاقَ في إغْلاقٍ )

"طلاق اور آزادی زبردستی نہیں ہوتی۔" (ابن ماجہ 1/660،(2046)ابو داؤد1/507)

امام ابو عبید اور امام قتیبی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں اغلاق کا معنی اکراہ ہے اسی طرح ابن دریداور ابو طاہر نحومین کے نزدیک بھی اس کا معنی اکراہ ہے۔(ملاحظہ ہو ھوامغنی لابن قدامہ 10/351شرح السنہ 9/222)

صحیح بخاری میں سیدنا ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ:

"طَلَاقُ السَّكْرَانِ وَالْمُسْتَكْرَهِ لَيْسَ بِجَائِزٍ . "(صحیح البخاری 2/793)

"نشے والے آدمی اور مجبور کی طلاق جائز نہیں۔"

امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"أن طلاق المكره لا يقع، روي ذلك عن عمر وعلي وابن عمر وابن عباس وجابر بن سمرة وبه قال عبد الله بن عبيد بن عمير وعكرمة والحسن وجابر بن زيد وشريح وعطاء وطاووس وعمر بن عبد العزيز ومالك والأوزاعي والشافعي وإسحاق وأبو ثور وأبو عبيد" (المغنیٰ 10/350)

"جبراً طلاق واقع نہیں ہوتی یہ مذہب سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اور سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سے مروی ہے اور یہی بات امام عبد اللہ بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ ،امام عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ،امام جابر بن زید رحمۃ اللہ علیہ ،امام شریح رحمۃ اللہ علیہ ، امام عطا ء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ ، امام طاؤس  رحمۃ اللہ علیہ ،امام عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابن عون رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابو ثور  رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ابو عبید  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہی ہے۔"(مزید ملاحظہ ہو شرح السنہ للا مام بغوی  رحمۃ اللہ علیہ 9/222)

کتاب و سنت کی نصوص صریحہ اور ان آئمہ کرام کی تصریحات کے مطابق جبراً طلاق واقع نہیں ہوئی۔ بصورت دیگر اگر خاوند کی رضا مندی سے طلاق دی گئی ہو تو پھر بھی مجلس واحدہ کی متعدد طلاقیں ایک طلاق رجعی کے حکم میں شمار ہوتی ہیں۔صحیح مسلم میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ:

"عن ابن عباس قال كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم"

 (مسلم 1/433)مسند احمد 1/314مستدرک حاکم 2/196)

"رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اور ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالفت کے ابتدائی دو سالوں میں اکٹھی تین طلاقیں ایک طلاق شمار ہو تی تھیں۔پھر سیدنا عمرفاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا جس کا م میں لوگوں کے لیے سوچ و بچار کی مہلت تھی اس میں انھوں نے جلدی سے کام لیا اگر ہم ان پر تینوں لازم کردیں تو کیا حرج ہے تو انھوں نے ان پر اسے لازم کر دیا۔"

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ دور نبوی اور صدیقی بلکہ خود دور فاروقی کے ابتدائی دو سالوں میں مجلس واحدہ کی تین طلاقیں ایک طلاق رجعی شمار ہوتی تھی۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور کا فیصلہ ایک شرعی اور حتمی فیصلہ ہےجس سے بڑھ کر کسی کا فیصلہ حجت شمار نہیں ہوتا جبکہ فاروق اعظم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا فیصلہ ایک سیاسی و تہدیدی فیصلہ تھا جیسا کہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب طحطاوی حاشیہ درمختار 6/115جامع الرموز 1/506مجمع الانہر شرح ملتقی الابہر 2/6۔طبع بیروت میں ہے کہ:

"واعلم ان في الصدر از اول اذا ارسل الثلاث جمله لم يحكم الا بوقوع واحده الي زمن عمر رضي الله تعاليٰ عنه ثم حكم بوقوع الثلاثه لكثرة بين الناس تهديدا "

(ابتدائی دور سے لے کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے زمانے تک جب اکٹھی تین طلاقیں بھیجی جاتیں تو ان پر ایک طلاق رجعی کا حکم لگایا جا تاتھاپھر جب یہ عادت لوگوں میں کثرت سے پھیل گئی تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے تین طلاقوں کا حکم تہدیدی طور پر لگا دیا۔"

اور الدر المنتقی فی شرح الملتقیٰ 2/6میں ہے کہ:

"انه كان في الصدر اول اذا ارسل الثلاث جمله لم يحكم الا بوقوع واحدة الي ذمن عمر رضي الله تعاليٰ عنه ثم حكم بوقوع الثلاثه سياسة لكثرته بين الناس "

فقہ حنفیہ کی اس صراحت سے واضح ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا فیصلہ ایک سیاسی وقتی اور تہدیدی تھا جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فیصلہ شرعی اور حتمی ہے جس کی بنا پر اکٹھی تین طلاقیں ایک طلاق رجعی کا حکم رکھتی ہیں جس میں خاوند دوران عدت اپنی بیوی سے رجوع کر کے اپنا گھر آباد کر سکتا ہے۔

بہر کیف پہلی صورت ہو تو طلاق واقع نہیں ہوئی اگر دوسری صورت تو ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے جس کے بعد خاوند اپنی بیوی کو اپنی زوجیت میں رکھ کر اپنا گھر آباد کر سکتا ہے۔ اس میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الطلاق۔صفحہ نمبر 432

محدث فتویٰ

تبصرے