ہمارے رشتہ داروں میں بہت سے ایسے پرو گرام ہو تے ہیں جن میں گانا بجانا ، تصویریں کھینچنا ، ڈھولک اور رقص وغیرہ کا بندوبست ہو تا ہے اور ہمیں بھی ان میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے تو کیا ایسی دعوت میں شریک ہو نا شرعاًجائز ہےیا اس کا انکار کر دینا مناسب ہے؟ کتاب و سنت کی روسے اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں کیونکہ ہماری رشتہ داری کا معاملہ ہے اور سنا ہے کہ رشتہ داری کو توڑنا بھی حرام ہے ۔بینو واتوجروا(عبد اللہ۔ لاہور)
ایسی دعوت جو اللہ تعالیٰ کی معصیت و نافرمانی پر مشتمل ہو اس میں شریک ہوناجا ئزنہیں ،ہاں اگرو ہاں پر برائی کو روکنے اور اس پر نکیر کرنے کے لیے جائیں تو درست ہے وگرنہ نہیں۔ کیونکہ وہ مجالس و محافل جن میں ڈھول ، طبلے ، سارنگیاں اور آلات طرب ،رقص و سرود،گانا بجانا اور تصویر سازی جیسی محرمات موجود ہیں ۔وہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی پر مشتمل ہیں بلکہ احکامات شرعیہ کا مذاق ہیں۔ ان میں شرکت ناجائز و حرام ہے جس طرح ان محرمات کا مرتکب و عید شدید کا مستحق ہے۔ اسی طرح ان کے اس فعل پر رضا مندی کاا ظہار کر کے مجلس میں شامل ہونے والا اور مجلس منعقد کرنے والا گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے (6) جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منھ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں، آپ اسے درد ناک عذاب کی خبر سنا دیجئے"
اس آیت کریمہ میں لَهْوَ الْحَدِيثِ کا مطلب گانا بجانا ہے جیسا کہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ وہ کہتے تھے
(تفسیر طبری 21/162ابن کثیر 3/1486)ابن ابی شیہ 6/309مستدرک حاکم 2/411بیہقی 10/223)
"اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس آیت کریمہ میں لَهْوَ الْحَدِيثِ سے مراد گانا بجانا ہے یہ بات انھوں نے تین مرتبہ دہرائی "
امام حاکم فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے تلخیص میں ان کی موافقت کی ہے۔ اسی طرح مفسر قرآن صحابی رسول عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی فرماتے ہیں کہ لَهْوَ الْحَدِيثِ سے مراد گانا بجانا اور اس جیسی دیگر اشیاء ہیں۔"(ملاحظہ ہو"تفسیر طبری 21/61،62،بیہقی 10/221،الادب المفرد (786)کشف الاستار (2664)ابن ابی شیبہ 6/310تفسیر عبد الرزاق اس روایت کی سند حسن ہے)یہی تفسیر جابر، رحمۃ اللہ علیہ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ ، قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ،ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ، مکحول رحمۃ اللہ علیہ ،عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ اور علی بن ہذیمہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی مروی ہے۔
(ملا حظہ ہو۔ تفسیر ابن کثیر 3/486)اور المنتقی النفیس ص:303)
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور آئمہ سلف صالحین کی اس توضیح سے معلوم ہوا کہ گانا بجا نا اور اس کے آلات کی خریداری بالکل ناجائز و حرام ہے۔ اس پر عَذَابٌ مُّهِينٌ کی وعید سنائی گئی ہے اور ایسے امور محرمہ جہاں موجو دہوں ، وہاں پر شرکت کرنے والا بھی انہی کے حکم میں ہے کیونکہ گناہ کرنے والا اور گناہ پر راضی رہنے والا دونوں ایک ہی حکم میں ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔:
"اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو! جب تک کہ وه اس کے علاوه اور باتیں نہ کرنے لگیں، (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو، یقیناً اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے"
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ اگر تم ایسی مجالس و محافل اور پروگراموں میں شرکت کرو گے جہاں احکامات الٰہیہ کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اور تم اس پر نکیر نہیں کرو گے تو تم بھی گناہ میں ان کے برابر شریک رہو گے ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جو ئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہو جائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یا د آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں۔"
تفسیر احسن البیان ص:177میں ہے کہ آیت میں خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن مخاطب امت مسلمہ کا ہر فرد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم ہے جسے قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے جہاں اللہ و رسول کے احکام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو یا عملاً ان کا استخفاف کیا جا رہا ہو یا اہل بدعت واہل زیغ اپنی تاویلات رکیکہ اور توجیہات سنجیفہ کے ذریعے آیات الٰہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں۔ ایسی مجالس میں غلط باتوں میں تنقید کرنے اور کلمہ حق بلند کرنے کی نیت سے تو شرکت جائز ہے بصورت دیگر سخت گناہ اور غضب الٰہی کا باعث ہے۔
ایسی مجالس جہاں پر منکرات و منہیات ہوں یا ایسی دعوتیں جہاں پر احکام خدا وندی کی قولاًیا فعلاً خلاف ورزی ہو رہی ہو، وہاں پر شرکت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ہاں ناپسندیدہ اور قابل نفرت تھا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
(سنن النسائی8/213(5366)ابن ماجہ مختصر 10(3359)مسند ابی یعلیٰ (436،551،552)
"علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے کھانا تیار کیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی، آپ آئے" گھر میں داخل ہوئے تو ایک تصویروں والا پردہ دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکل گئے اور فرمایا :" فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویریں ہوں۔"
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ جس دعوت میں آپ کو شریک ہونے کی دعوت دیں۔ اگر آپ کے علم میں ہو کہ وہاں پر منکرات و منہیات ہیں تو ایسی دعوت پر نہ جائیں اور اگر وہاں پہنچنے پر علم ہو تو وہاں سے خارج ہو جائیں کیونکہ اس مجلس میں حاضر و شریک رہنا جائز نہیں۔
(بخاری (5957،3105،5181،7557،) مسلم 96/2107مسند احمد 6/46مؤطا مالک746)
"عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک چھوٹا گدیلا خریدا ۔اس میں تصاویر تھیں(نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر سے آئے) تو دروازے پر کھڑے ہو گئے۔ اندر داخل نہ ہوئے۔ میں نے کہا میں اپنے جرم کی توبہ اللہ کی طرف کرتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: یہ گدیلا کیا ہے؟میں نے کہا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھیں ، اس کو اپنے نیچے رکھیں فرمایا:ان تصویروں کو بنانے والے قیامت کے دن عذاب دئیے جائیں گے۔ انہیں کہا جائے گا جو تم نے پیدا کیا۔ اس میں روح ڈالو اور یقیناً فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویریں ہوں۔"
اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ جہاں پر احکامات شرعیہ کی خلاف ورزی ہو۔ آپ وہاں شرکت نہ کریں ۔ اگر جائیں تو ان منکرات پر نکیر کریں اور دعوت دے کر سمجھائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد ہے:
(مسند احمد 1/126،3/339،مسند ابی یعلی(1925)ترمذی (2803) مستدرک حاکم 4/288،1/162)
"جو آدمی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔ وہ ایسے دسترخوان پر ہرگز نہ بیٹھے جہاں شراب پیش کی جا رہی ہو۔"
امام حاکم نے اسے صحیح کہا۔امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی موافقت کی، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن کہا اور علامہ البانی حفظہ اللہ نے ارواء الغلیل 7/6(1949)میں اسے صحیح قراردیا ہے۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ایسی مجالس و محافل جہاں پر شراب کے دور چل رہے ہوں۔ ان میں شرکت حرام ہے کیونکہ یہ اللہ کی نا فرمانی پر مشتمل ہے۔ سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہ کا بھی اس بات پر عمل تھا کہ جہاں اللہ کی نا فرمانی ہوتی اس مجلس میں شرکت نہیں کرتے تھے۔
(بیہقی 7/268فتح الباری 1/531صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ فی البیعۃ معلقا الادب المفرد 227۔(1248)
"اسلم جو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام تھے فرماتے ہیں۔ کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب شام میں آئے تو ایک عیسائی نے آپ کو کھانے کی دعوت کی اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگا۔میں آپ اور آپ کے ساتھیوں کی آمد کو پسند کرتا ہوں کہ آپ میرے پاس آئیں اور مجھے شرف بخشیں ۔وہ شام کے علاقے کا بڑا چوہدری تھا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :ہم تمھارے معبد خانوں میں تصویروں کی وجہ سے داخل نہیں ہوتے۔"
"ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے ایک آدمی نے کھانا تیار کیا۔ پھر انہیں دعوت دی تو انھوں نے کہا کہ گھر میں تصویر ہے تو اس نے کہا ہاں تو انھوں نے داخل ہونے سے انکار کر دیا حتیٰ کہ اس نے تصویر کو توڑا پھر آپ داخل ہوئے۔"
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"لا ندخل وليمة فيها طبل ولا معزاف"(الفوائد المنتقاۃلابی الحسن الحربی 401/3بحوالہ آداب الزفاف للشیخ الالبانی حفظہ اللہ ص: 166)
"ہم ایسے ولیمے میں داخل نہیں ہوتے جس میں طبلے سارنگیاں ہوں۔"
مندرجہ بالا آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ اور عمل سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہ سے معلوم ہوا کہ وہ عورتیں اور مجلسیں جن میں اللہ کی نا فرمانی پر مشتمل امور سر انجام دیئے جاتے ہوں ۔ آلات طرب ڈھولک ، طبلے ، سارنگیاں ، بانسریاں ، مزامیر،دھمال اور رقص و سرود تصویر سازی، گانے بجانے جیسے غیر شرعی امور پر عمل کیا جا تا ہو۔
وہاں پر شرکت کرنا ، ان کے ساتھ بیٹھنا ، ایسے پرو گرام سننا، اس کا بندو بست کرنا ناجائز و حرام ہے۔ اگر وہاں سے یہ امور قبیحہ و شنیعہ ختم کر دئیے جائیں تو پھر شرکت جائز و درست ہے اللہ تعالیٰ کے احکام کے مقابلہ میں عزیزو اقارب اور رشتہ داری کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔جس آدمی کو اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں رشتہ داری، کنبہ، برادری، خاندان ، قبیلے ، دوست واحباب اور مال و متاع وغیرہ زیادہ پیارے اور عزیز ہیں۔ اسے اللہ کے عذاب کا منتظر رہنا چاہیے جیسا کہ سورہ توبہ کی آیت :124اور سورہ نور کی آیت :63 میں مذکور ہے(مجلہ الدعوۃ جنوری 1998ء)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب