سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(40) قربانی کے مسائل

  • 20856
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2009

سوال

(40) قربانی کے مسائل
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مجلۃ الدعوۃ اپریل 1999ء میں "قربانی کے احکام ایک نظر میں"طبع ہوئے اس میں تین مسائل قابل تحقیق ہیں یہ ہمیں قرآن و سنت میں نہیں ملے ۔

1۔قربانی کا جانور دو دانتا ہونا چاہیے دودانتا نہ ملنے کی صورت میں ایک سالہ مینڈھا یا دنبہ قربانی دیا جا سکتا ہے۔

2۔اونٹ کی قربانی میں دس اور گائے کی قربانی میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔

3۔مناسب ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں (الف )اپنے استعمال کے لیے (ب) عزیز واقارب میں تقسیم کرنے کے لیے (ج)غرباء و مساکین اور مجاہدین و غریب طالبان دین کے لیے (السائل گلزار احمد،بھکر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مندرجہ بالا تین سوالات حافظ عبدالستار حماد صاحب حفظہ اللہ کے مضمون سے متعلق ہیں جو اپریل 1999ء کے مجلہ الدعوۃ میں چھپاتھا۔۔حافظ صاحب موصوف کی مسائل عیدین وغیرہ پر ایک کتاب بھی طبع ہوئی ہے۔ جس میں اس کی تفصیل موجود ہے مختصراً جواب درج ذیل ہے۔

1۔قربانی کا جانور دودانتا ہو نا چاہیے اگر دودانتا نہ ملے تو پھر بھیڑ کا کھیرا قربانی دیا جا سکتا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(لا تَذْبَحُوا إِلا مُسِنَّةً إِلا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ ) (صحیح مسلم کتاب الاضاحی باب سن الاضحیہ(1963)

"دودانتے کے علاوہ ذبح نہ کرو مگر تمھارے اوپر تنگی ہو تو بھیڑ کا کھیرا ذبح کر لو۔"

اس صحیح  حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور دودانتا ہونا چاہیے امام نووی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"الْمُسِنَّة هِيَ الثَّنِيَّة مِنْ كُلّ شَيْء مِنْ الإِبِل وَالْبَقَر وَالْغَنَم فَمَا فَوْقهَا , وَهَذَا تَصْرِيح بِأَنَّهُ لا يَجُوز الْجَذَع مِنْ غَيْر الضَّأْن فِي حَال مِنْ الأَحْوَال " (شرح مسلم للنووی 13/99)

"مسنہ اونٹ گائے اور بکری وغیرہ میں سے دودانتے کو کہتے ہیں اور یہ صراحت ہے کہ بھیڑ کےعلاوہ کسی حالت میں کھیرا قربان کرنا جائز نہیں۔"

اور یہ بھی یاد رہے کہ عسرت (تنگی) کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔

(ا)دودانتا جانور مل نہ رہا ہو۔

(ب)دودانتا مل رہا ہے لیکن خریدنے کی طاقت نہیں ان ہر دو صورتوں میں بھیڑ کا کھیرا قربانی دے سکتے ہیں۔

اونٹ کی قربانی میں دس افراد کی شرکت

2۔اونٹ کی قربانی میں دس آدمی اور گائے کی قربانی میں سات آدمی کی شراکت کی دلیل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی یہ حدیث ہے۔

" كنا مع رسول الله - صلى الله عليه وعلى آله وسلم - في سفر , فحضرنا النحر , فاشتركنا في البعير عن عشرة , والبقرة عن سبعة"

(نسائی کتاب الضحایا باب ما تجزی عنہ البدنۃ فی الضحایا(4404)ترمذی کتاب الحج باب ماجاءفی الاشتراک فی البدنہ والبقرہ (905)ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب عن کم تجزی البدنۃ والبقرۃ (3131) مسند احمد 1/275مستدرک حاکم 4/230)

"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ سفر میں تھے تو قربانی آگئی ہم اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے اور گائے میں سات ۔"

علامہ عبید اللہ رحمانی مبارک پوری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں ۔

"فيه دليل على أنه يجوز اشتراك عشرة أشخاص في البعير، وبه  قال اسحاق بن راهويه وابن خزيمه وهو الحق خلافا للجمهور"

(مرعاۃ المفاتیح 5/102)

"اس حدیث میں دلیل یہ ہے کہ اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کا شریک ہونا جائز ہے اور یہی قول امام اسحاق راہویہ رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ابن خزیمہ  رحمۃ اللہ علیہ  کا ہے اور یہی حق ہے جمہور اس کے خلاف ہیں۔"

اور اس کی تائید رافع بن خدیج  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں، ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ذوالحلیفہ مقام پر تھے بکریاں اور اونٹ ہمارے ہاتھ لگے۔لوگوں نے جلدی جلدی انہیں ذبح کر کے ہانڈیاں چڑھا کر ابالنی شروع کردیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہانڈیاں اُلٹ دینے کا حکم دیا اور فرمایا:

"ثم عدل عشرة من الغنم يجزور"

(بخاری کتاب الشرکۃ باب من عدل عشرۃ من الغنم بجزور فی القسم (2507)و باب قسمۃ الغنم (2488) و کتاب الصید والذبائح باب التسمیۃ علی الذبیحہ ومن ترک متعمدا(5498)نسائی کتاب الضحایا باب ما تجزی عنہ الندنۃ فی الضحایا(4403)و کتاب الصید باب الانسیہ تستوحش (2309) مسلم کتاب الاضاحی باب جواز الذبح بکل ما انھرالدم الاالسن والظفر و سائر العظام ابو داؤد کتاب الاضاحی (2821) ترمذی کتاب الاحکام (1492) تحفۃ الا حوذی 2/1069)

"آپ نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے مساوی قراردیا۔"

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قراردیا ہے۔ اور ایک بکری کی قربانی ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے لہٰذا ایک اونٹ کی قربانی میں دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔

قربانی کے گوشت کے حصے

3۔قرآن مجید یا احادیث صحیحہ میں قربانی کے گوشت کے دو حصے مقرر کرنے کا حکم موجود نہیں ہے بلکہ مطلق طور پر قربانی گوشت کھانے اور کھلانے کا حکم ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَالبُدنَ جَعَلنـٰها لَكُم مِن شَعـٰئِرِ اللَّهِ لَكُم فيها خَيرٌ فَاذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلَيها صَوافَّ فَإِذا وَجَبَت جُنوبُها فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا القانِعَ وَالمُعتَرَّ ... ﴿٣٦﴾... سورةالحج

"اور قربانی کے اونٹ ہم نے تمھارے لیے اللہ تعالیٰ کے نشانات مقرر کر دئیے ہیں۔ تمھارے لیے ان میں نفع ہے پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو اور جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور ان کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔"ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿وَيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـٰتٍ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا البائِسَ الفَقيرَ ﴿٢٨﴾... سورةالحج

"اور چند مقرر کردہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں عطا کیے ہیں پس تم خود بھی کھاؤ اور تنگ دست و محتاج کو بھی دو۔"

سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلاَ يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ» فَلَمَّا كَانَ العَامُ المُقْبِلُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ المَاضِي؟ قَالَ: «كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا، فَإِنَّ ذَلِكَ العَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا"

(بخاری کتاب الاضاحی باب ما یؤکل من لحوم الاضاحی و ما یتزود منہا (5569)

"جو تم میں سے قربانی کرے تیسرے دن کے بعد اس کے گھر میں اس میں سے کوئی چیز باقی نہ ہو اگلے سال صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا اے اللہ کے رسول  جس طرح ہم نے گزشتہ برس قربانی کے بارے میں کیا تھا کیا اس  سال  بھی اسی طرح کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :کھاؤ اور کھلاؤاور ذخیرہ کروہ بلا شبہ اس سال لوگ  مشقت  میں تھے  میں نےچاہا کہ تم ان کی اعانت کرو۔

مندرجہ بالا آیات اور حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں اور اس کا ذخیرہ بھی کر سکتے ہو۔ اس کی تقسیم کی کوئی حد بندی نہیں ہے کہ اس کے اتنے حصےکرو اور اتنا خود رکھو۔اتنا مساکین کو دو اور اتنا قریبی رشتہ داروں کو دو۔

حافظ اعبدالستار حماد حفظہ اللہ نے بھی یہ تحریر کیا ہے کہ"قربانی کا گوشت خود کتنا کھائے اور کتنا تقسیم کرے؟ اس کی حد بندی کے متعلق کوئی نص صریح نہیں ہے۔البتہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ گوشت کے تین حصے کر لیے جائیں ۔ ایک اپنے لیے دوسرا احباب و متعلقین کے لیے اور تیسرا فقراء و محتاجین کے لیے انھوں نے اس تقسیم کو استنباط کیا ہے جو قربانی کے گوشت کے متعلق ہے۔

"فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ "

 (احکام صیام و مسائل عیدین وآداب قربانی ص: 126)

"قربانی کے گوشت خود بھی کھاؤ اور خوددار محتاج اور سوالی کو بھی کھلاؤ۔"

حالانکہ اس آیت کریمہ میں مطلق طور پر خود کھانے اور فقراء و مساکین کو کھلانے کا امر ہے۔ گوشت کی حد بندی نہیں ہے کہ اتنا خود کھائے اور اتنا فقراء کو دےبہر کیف قربانی کا گوشت کھانا باعث برکت ہے البتہ اس کی حد بندی پر کوئی نص صریح موجود نہیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الاضحیۃ۔صفحہ نمبر 329

محدث فتویٰ

تبصرے