سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(37) غیر محرم عورت کے جنازے کو کندھا دینا

  • 20853
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1629

سوال

(37) غیر محرم عورت کے جنازے کو کندھا دینا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا غیر محرم مرد غیر محرم عورت کی میت کو کندھا دے سکتا ہے کہ نہیں؟ اکثردوست کہتے ہیں دے سکتا ہے بلکہ دینا چاہیے۔اس سے اجر و ثواب ملتا ہے، کہنے والے بھائی نے اچھی طرح وضاحت نہیں کی۔آپ مہر بانی قرآن و سنت کی روسے وضاحت کریں(محمد وسیم سلفی ،کوٹ رادھا کشن)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب مسلمان مرد یا عورت فوت ہو جائے تو حقوق العباد میں سے ایک حق یہ ہے کہ اس کے جنازے کے پیچھے جائیں اور جنازے کو اٹھائیں ۔ اور جنازہ اٹھانے والے اور پیچھے جانے والے مرد ہی ہوتے ہیں عورتوں کے لیے مکروہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورت کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے محرم اور غیر محرم کا فرق نہیں کیا۔ کوئی بھی مسلمان میت کو کندھا دے سکتا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ:

(حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خَمْسٌ : رَدُّ السَّلَامِ وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ )

(بخاری مع فتح الباری کتاب الجنائز باب الامر باتباع الجنائز (1240)مسلم (2162)عمل الیوم واللیلہ للنسائی (221)ابو داؤد(5020)

"مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں۔سلام کا جواب دینا بیمار کی عیادت کرنا جنازوں کے پیچھے جانا دعوت قبول کرنا اور چھینک مارنے والے کو جواب دینا۔"

اسی طرح ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

((عُودُوا الْمَرْضَى وَاتَّبِعُوا الْجَنَائِزَ تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ))

(مسند ابی یعلیٰ (1320)موادالظمان(709)مسند احمد(3/31،32،48،مسند بزار(522)ابن ابی شیہ 3/235،للشیخ السنۃ 5/387،379،کتاب الزہد لا بن المبارک (248) الادب المفرد (518) مسند الشاب(727)السنن الکبری للبیہقی 3/379،380،)

"بیماروں کی عیادت کرو۔ جنازوں کے پیچھے جاؤ۔یہ تمھیں آخرت یاد دلائیں گے۔"

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ صریحہ سے معلوم ہوا کہ مردوں کو جنازوں کے پیچھے جانے کا حکم ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس میں عورت کے لیے محرم وغیرمحرم کی تخصیص نہیں کی ۔اور عورتوں کو جنازوں کے پیچھے آنے سے منع کیا گیا اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں۔

"قَالَتْ نُهِينَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ ، وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا"

 (بخاری کتاب الجنائز باب اتباع النساء الجنائز (1278) مع فتح الباری المنتقی لا بن الجارود(531)مسلم (938)ابو داؤد (3167) ابن ماجہ (1577)مسند احمد(6/408۔409۔عبد الرزاق 3/454۔455السنن الکبری للبیہقی 4/77)

"ہمیں جنازوں کے پیچھے جانے سے روک دیا گیا اور ہمیں منع میں تاکید نہیں کی گئی۔"

معلوم ہوا کہ جنازوں کے ساتھ جانے کا حکم مردوں کو ہے عورتوں کو نہیں لہٰذا مرد ہی جنازے کو کندھا دیں گے۔ میت کو اٹھا نے اور قبر میں اتارنے کے لیے محرم کی شرط کا کوئی ثبوت نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی صحیح میں باب حمل الرجال الجنازۃ دون النساء میں بھی یہ سمجھا یا ہے کہ جنازہ اٹھانا مردوں کا کام ہے عورتوں کا نہیں بلکہ ایک صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر محرم آدمی عورت کی میت کو قبر میں اتارسکتا ہے جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"شَهِدْنَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عَلَى الْقَبْرِ فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَدْمَعَانِ فَقَالَ هَلْ فِيكُمْ مِنْ أَحَدٍ لَمْ يُقَارِفْ اللَّيْلَةَ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ أَنَا قَالَ فَانْزِلْ فِي قَبْرِهَا فَنَزَلَ فِي قَبْرِهَا فَقَبَرَهَا "

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب من یدخل قبر المراۃ (1342)

"ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیٹی کے جنازے میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  قبر پر بیٹھے ہوئے تھے میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جس نے آج رات بیوی سے صحبت نہیں کی۔ابو طلحہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم اس کی قبر میں اترو۔ تو ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  قبر میں اترے اور انہیں قبر میں دفنایا۔"

ابو طلحہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیٹی کو قبر میں اتارنا اس بات کی دلیل ہے کہ غیر محرم مرد عورت کو جب قبر میں اتار سکتا ہے تو اسے جنازے میں کندھا دینے سے کونسی چیز مانع ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الجنائز۔صفحہ نمبر 276

محدث فتویٰ

تبصرے