سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(35) جنازے میں چلتے ہوئے بلند آواز سے ذکر کرنا

  • 20851
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2329

سوال

(35) جنازے میں چلتے ہوئے بلند آواز سے ذکر کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جنازہ لے کر جاتے وقت بلند آواز سے ذکرکرنا فقہ حنفیہ کی روسے کیسا ہے، بالتفصیل وضاحت فرمائیں۔ نیز قبروں کو پختہ بنانا کیسا ہے اور نماز جنازہ میں احناف کے نزدیک قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟(عبدالرحمٰن ،لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے کسی بھی صحیح حدیث میں جنازہ کے ساتھ ساتھ بلند آواز سے ذکر کرنا ثابت نہیں بلکہ اس کی کراہت منقول ہے۔ سیدنا قیس بن عباد سے روایت ہے کہ۔

« كانَ أَصْحابُ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ يَكْرهُونَ رَفعَ الصَّوتِ عِندَ الجَنَائِزِ »

(بیہقی 4/74مزید تفصیل کے لیے"آپ کے مسائل "1/225،ملاحظہ کریں)

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  جنازوں کے پاس آواز بلند کرنا نا پسند کرتے تھے۔"

فقہ حنفیہ کی روسے بھی نماز جنازہ کے ساتھ بلند آواز سے ذکر کرنا وغیرہ مکروہ ہے۔

1۔علامہ حسن بن عمار الشرنبلالی الحنفی رقم طراز ہیں۔

"يكره رفع الصوت بالذكر" (نور الایضاح مع الو شاح :273)

"جنازے کے ساتھ بلند آواز سے ذکر کرنا مکروہ ہے۔"

2۔علامہ ابن الہمام حنفی فرماتے ہیں:

"ويكره لمشيعها رفع الصوت بالذكر والقراءة، لأنه فعل الكتابي ، ويذكر في نفسه "

(فتح القدیر شرح ھدایہ 2/97)

"جنازے کے ساتھ چلنے والے کے لیے بلند آواز سے ذکر اور قرآءت کرنا مکروہ ہے اسے دل میں کرنا چاہیے۔"

3۔علامہ ابن نجیم المعروف بابی حنیفہ الثانی فرماتے ہیں۔

"قال ابن نجيم الحنفي: «وينبغي لمن تبع جنازة أن يطيل الصمت ويكره رفع الصوت بالذكر وقراءة القرآن وغيرهما في الجنازة، والكراهة فيها كراهة تحريم " (البحرالرائق2/192)

"جنازے کے پیچھے آنے والے کو چاہیے کہ لمبی خاموشی اختیار کرے ذکر اور تلاوت قرآن وغیرہما کے ساتھ آواز بلند کرنا مکرو ہ ہے اور یہ مکروہ تحریمی ہے۔"

4۔علامہ قاضی خان رقم طراز ہیں۔

"وَعَلَى مُتَّبِعِي الْجِنَازَةِ الصَّمْتُ وَيُكْرَهُ لَهُمْ رَفْعُ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ، كَذَا فِي شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ، فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يَذْكُرَ اللَّهَ يَذْكُرُهُ فِي نَفْسِهِ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ"

(فتاوی قاضی خان (192)

"جنازے کے ساتھ ذکر کرنا مکروہ ہے کہ اللہ کا ذکر کرنا چاہے تو اپنے دل میں کرے۔ ابرہیم نخعی  رحمۃ اللہ علیہ  سے منقول ہے کہ وہ فرماتے ہیں سلف صالحین اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے کہے کہ"اس کے لیے بخشش کی دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں معاف کرے۔

5۔علامہ طحطاوی حنفی راقم ہیں۔

"ويكره رفع الصوت" قيل يكره تحريما كما في القهستاني عن القنية "(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح :232)

"جنازے کے ساتھ بلند آواز سے ذکر کرنا مکروہ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے۔کہ مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ قستانی میں قنیہ سے روایت کی گئی ہے ۔"

6۔نیز مراقی الفلا ح برھامش طحطاوی ص:332میں ہے۔

"ويكره رفع الصوت بالذكر" والقرآن وعليهم الصمت "

"جنازے کے ساتھ بلند آواز سے ذکر کرنا اور قرآن پڑھنا مکروہ ہے۔ اور جنازے کے ساتھ چلنے والوں کو خاموشی لازم ہے۔"

7۔فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔

"وعلى متبع الجنازة الصمت ويكره لهم تحريماً رفع الصوت بالذكر وقراءة القرآن كذا في شرح الطحاوي" (فتاویٰ عالمگیری 1/162)

"جنازے کے ساتھ چلنے والوں پر خاموشی لازم ہے اور ان کے لیے بلند آواز سے ذکر کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا مکروہ ہے جیسا کہ طحاوی کی شرح میں ہے۔"

8۔علامہ ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں۔

"وينبغي لمن تبع جنازة أن يطيل الصمت "(فتاویٰ شامی 1/598)

"جنازے کے پیچھے آنے والے کو چاہیے کہ وہ لمبی خاموشی اختیار کرے۔"

9۔علامہ حصکفی حنفی راقم ہیں۔

"إن تباعد عنها أو تقدم الكل أو ركب أمامها، كره كما كره فيها رفع صوت بذكر او قراءة" (درمختار برھا مش رداالمختار 1/598)

"اگر میت سے دور ہو یا سب سے آگے نکل جائے یا میت کے آگے سوار ہو کر جائے تو یہ اسی طرح مکروہ ہے جیسے بلند آواز سے ذکر یا قرآن کی تلاوت کرنا مکروہ ہے۔"

10۔علامہ ابراہیم الحلیٰ الحنفی رقم طراز ہیں۔

"وينبغي لمن تبع جنازة أن يطيل الصمت ويكره رفع الصوت بالذكر وقراءة القرآن وغيرهما في الجنازة، والكراهة فيها كراهة تحريم واختاره مجدالائمه الترجماني .....عن قيس بن عباد أنه قال : كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يكرهون رفع الصوت ; عند ثلاث ; عند الجنائز ، وعند الذكر ، وعند القتال  وفي الجنازة وفي الذكر ذكره ابن منذر في الاشراف" (حلبی کبیر:594)

"جنازے کے ساتھ چلنے والے کو لمبی خاموشی اختیار کرنی چاہیے اور بلند آواز سے ذکر اور قرآن کی تلاوت کرنا مکروہ ہے۔ فتاویٰ العصر میں ذکر  کیا گیا ہے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے اور علامہ مجد الائمہ الترجمانی نے اسے ہی اختیار کیاہے۔ اور قیس بن عبادہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  تین مقامات پر آواز بلند کرنا مکروہ سمجھتے تھے ۔

1۔لڑائی کے وقت(2)جنازے میں(3)ذکر کے وقت اسے ابن منذر نے اشراف میں ذکر کیا ہے۔"

11۔شاہ رکن الدین نے لکھا ہے جو لوگوں کہ جنازہ کے ہمراہ ہوں ان کو کلمہ طیبہ راستہ میں پڑھنا کیسا ہے؟

پکار کر پڑھنا تو مکروہ ہے۔ دل میں اگرپڑھیں تو مضائقہ نہیں بہتر خاموشی ہے۔(رکن الدین ص: 237)

مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے خاموشی اختیار کرنی چاہیے حتیٰ کہ اگر کوئی ذکر یا تلاوت کرنا چاہے تو وہ بھی اپنے دل میں کرے کسی شخص کو جنازہ کے ساتھ بلند آواز سے ذکریا تلاوت کرنے کی اجازت نہیں۔ فقہائے احناف کے ہاں بالخصوص یہ مکروہ تحریمی ہے لہٰذا بریلوی حضرات جو جنازے کے ساتھ نعت گوئی یا کلمہ شہادت بلند آواز سے کہتے ہیں درست نہیں بلکہ ان کے اپنے مذہب میں ہی یہ مکروہ تحریمی ہے۔انہیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

2۔پختہ قبریں

اسلام میں پختہ قبروں کا کوئی تصور موجود نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے پکی قبریں بنانے سے منع کیا ہے۔ حضرت جابر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔

"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص القبر وأن يقعد عليه وأن يبنى عليه"

 (مسلم کتاب الجنائز(970)ابو داؤد، کتاب ا لجنائز (13225)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پختہ قبریں بنانے اور ان پر بیٹھنے اور عمارت تعمیر کرنے سے منع کیا ہے۔"

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ قبریں پکی بنانا اور ان پر عمارت تعمیر کرنا درست نہیں۔ فقہ حنفی کے بانی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  اور امام محمد  رحمۃ اللہ علیہ  کا ارشاد بھی ملاحظہ فرمائیں۔

"ولا نرى أن يزاد على ما خرج منه، ونكره أن يجصص، أو يطين، أو يجعل عنده مسجدا أو علما، أو يكتب عليه، ويكره الآجر أن يبنى به، أو يدخله القبر، ولا نرى برش الماء عليه باساً وهو قول ابي حنيفه رحمة الله عليه"

 (کتاب الاثار مترجم ص:126باب تسنیم القبور وتجصیصہا)

"اور نہیں دیکھتے ہم یہ کہ زیادہ کیا جائے اس چیز پر جو کہ اس سے نکلے یعنی جو مٹی قبر سے نکلی ۔ اس کے سوا اور مٹی نہ اس میں ڈالی جائے اور مکروہ رکھتے ہیں ہم یہ کہ گچ کی جائے یا مٹی سے لیپی جائےیا اس کے پاس مسجد بنائی جائے یا نشان بنایا جائے یا اس پر لکھا جائے اور مکروہ ہے، پکی اینٹ کہ اس سے قبر بنائی جائے یا قبر میں داخل کی جائے اور ہمارے نزدیک قبر پر پانی چھڑکنے میں کچھ گناہ نہیں اور امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کا یہی قول ہے۔"

معلوم ہوا کہ فقہ حنفی کی روسے بھی پکی قبریں بنانا اور ان کے قریب مسجدیں تعمیر کرنا درست نہیں بلکہ مکروہ تحریمی ہے کیونکہ جب مطلق مکروہ کہا جائے تو مراد تحریمی ہی ہوتا ہے(فتح القدیر شرح ہدایہ 2/114البحرالرائق 2/19فتاویٰ شامی 1/429وغیرھا)

لہٰذا قرآن و سنت اور فقہ حنفیہ کی روسے پختہ قبریں ناجائز اور گرادینے کے کے لائق ہیں۔ ایسی قبروں کو گرا کر عام قبروں کے برابر یعنی زمین سے ایک بالشت اونچی کردی جائیں اور قبے وعمارات ختم کردی جائیں۔اور عصر حاضر میں مقابر پر جتنے قبے اورعمارات تعمیر کی گئی ہیں بلکہ پختہ قبروں کے پاس جو مساجد بنادی گئی ہیں ۔امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے ہاں مکروہ تحریمی ہیں۔اس مسئلہ کی تفصیل کے لیے راقم الحروف کی کتاب"کلمہ گومشرک"ملاحظہ ہو۔

3۔نماز جنازہ میں قہقہہ لگانا

احناف کے نزدیک نواقص وضو میں سے قہقہہ بھی ہےاور صرف رکوع و سجود والی نماز کے ساتھ خاص ہے۔ نماز جنازہ میں چونکہ رکوع و سجود نہیں اس لیے اگرچہ اس سے گریز کرنا چاہیے تاہم جنازہ میں اگر کوئی شخص زور زور سے ہنسے تو شریعت کی نظر میں اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔فقہ حنفیہ کی مشہور کتاب قدوری ص: 20۔

"والقهقهة في كل صلاة ذات ركوع وسجود "

"ہر رکوع اور سجدے والی نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔"

قدوری میں بین السطورلکھا ہے۔

"اُحتزر به عن صلاة الجنازة وسجدة التلاوة "

"رکوع اور سجدے کی قید لگا کر نماز جنازہ اور سجدہ تلاوت سے احتراز کیا گیا ہے۔"

اگر کہا جاتا کہ قہقہہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے تو درست تھا مگر یہ کہا گیا کہ نماز میں قہقہہ سے نماز کے ساتھ ساتھ وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے بالکل غلط اور بے دلیل بات ہے۔ احناف جو روایات پیش کرتے ہیں وہ ضعیف ہیں اور حاشیہ قدوری میں یہ بات ذکر کی گئی ہے۔ کہ یہ روایتیں مرسل ہیں اور مرسل محدثین کے ہاں ضعیف کی اقسام سے ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الجنائز۔صفحہ نمبر 250

محدث فتویٰ

تبصرے