سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34) نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا

  • 20850
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 5912

سوال

(34) نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔وضاحت فرمائیں۔(عبداللہ ،منڈی بہاؤالدین)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز جنازہ ادا کرنا مسلمان کا حق ہے اور صحیح حق کی ادائیگی تب ہی ہوتی ہے جب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے مطابق ادا کیا جائے۔ دور حاضر میں دیکھا گیا ہے کہ جنازہ پڑھنے کے لیے ایک تو افراد کی کمی بہت ہوتی ہے لوگ اسےفرض کفایہ سمجھ کر رسمی طور پر ادا کرنے لگے ہیں دوسری بات یہ ہے کہ جنازہ پڑھانے والے افراد بھی ایک آدھ منٹ میں جنازہ پڑھا کر فارغ ہو جاتے ہیں حالانکہ میت کے ساتھ صحیح وفاداری تب ہی ہوتی ہے۔ جب اس آخر وقت میں اس کا جنازہ سنت کے مطابق ادا کیا جائے ۔ نماز جنازہ میں سورۃفاتحہ اور اس کے ساتھ کوئی سورۃ پڑھیں ۔ بہر کیف فاتحہ پڑھنا تو لازم ہے چند ایک احادیث صحیحہ ملاحظہ ہوں۔

1۔حضرت طلحہ بن عبد اللہ بن عوف  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔

"صليت خلف ابن عباس رضي الله عنهما على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب قال ليعلموا أنها سنة "

(بخاری کتاب الجنائز باب قراۃ فاتحۃ الکتاب علی الجنائزۃ(1335)ابو داؤد(3198)ترمذی (1027)

"میں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی انھوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی فرمایا:تاکہ تم جان لو یہ سنت ہے۔"

2۔ حضرت طلحہ بن عبد اللہ بن عوف  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کہتے ہیں۔

"صليت خلف ابن عباس على جنازة ، فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة ، فجهر حتى سمعنا ، فلما انصرف أخذت بيده فسألته عن ذلك ؟ فقال : سنةٌ وحقٌ "

(نسائی کتاب الجنائز باب الدعاء(1986،1987)المنتقی لا بن الجارود (536،537،538)بیہقی 4/37مسند ابی یعلیٰ 5/67(2661)الا وسط لا بن المذر 5/437)

"میں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پیچھے نماز جنازہ ادا کی انھوں نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورۃ جہری طور پر پڑھی یہاں تک کہ ہمیں سنایا۔جب فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا انھوں نے فرمایا :یہ سنت اور حق ہے۔"

(یہی حدیث کتاب الام للشافعی 1/270بیہقی 4/39شرح السنہ 5/353۔ (1494)المحلیٰ 5/129مسند طیالسی (2741دارقطنیٰ 2/72شرح معانی الاثار 1/500مستدرک حاکم 1/358میں بھی موجود ہے۔)

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ اور ایک سورۃپڑھ کر تعلیم دے دی کہ نماز جنازہ میں فاتحہ پڑھنا سنت ہے اور جب صحابی رسول کہے کہ یہ عمل سنت ہے تو اس سے مراد سنت رسول ہی ہوتی ہے۔جیسا کہ صحیح بخاری کتاب الحج باب الجمع بین الصلاتین بعرفۃ(1663) میں ہے کہ سالم بن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  (جو کہ مدینہ کے سات فقہاء میں سے ایک ہیں)کہتے ہیں کہ جس سال حجاج بن یوسف عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے جنگ کرنے کے لیے مکہ میں اترا۔ اس زمانہ میں اس نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے سوال کیا کہ عرفہ کے دن آپ عرفات کی قیام گاہ میں کیا کرتے ہیں۔ سالم نے کہا اگر تو سنت چاہتا ہے تو عرفہ کے دن ظہر کی نماز کو جلدی ادا کر لے۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا:سالم نے سچ کہا۔ کیونکہ سنت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  ادا کرنے کے لیے لوگ ظہر و عصر کی نمازوں کو جمع کر کے پڑھتے ہیں امام زہری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں میں نے سالم  رحمۃ اللہ علیہ  سے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا کیا تھا؟ تو سالم  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: «وَهَلْ تَتَّبِعُونَ فِي ذَلِكَ إِلَّا سُنَّتَهُ» یعنی اس فعل سے مراد محض سنت کا اتباع ہی تو ہے۔

معلوم ہوا کہ جب مطلق طور پر لفظ سنت بولتے ہیں تو مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہی ہوتی ہے۔

حد خمر کے بارے میں سید  نا علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"جلد النبي صلى الله عليه وسلم أربعين وجلد أبو بكر أربعين وعمر ثمانين وكل سنة " (صحیح مسلم کتاب الحدود باب حد الخمر (1707)

"نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے 40دُرےلگائے اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بھی 40دُرے لگائے۔اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے 80 دُرےلگائے اور یہ سب سنت ہے۔"

علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ مطلق سنت سے مراد اولاً سنت رسول ہی ہوتی ہے نیز خلیفہ راشد کے فعل کو بھی سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث کے تحت امام حاکم فرماتے ہیں۔

"وقد أجمعوا على أن قول الصحابي سنة ، حديث مسند "

(مستدرک 1/358)

"فقہاء محدثین  رحمۃ اللہ علیہ  کا اس بات پر اجماع کہ صحابی کا کہنا کہ یہ سنت ہے مسند حدیث کے حکم میں ہے۔"

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کتاب الام 1/240میں فرماتے ہیں۔

"واصحاب النبي صلي الله عليه وسلم لا يقولون:السنة الا لسنة رسول الله صلي الله عليه وسلم ان شاء الله تعاليٰ"

(حاشیہ نصب الرایۃ 2/271)

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سنت کا لفظ صرف سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر ہی بولتے تھے ان شاء اللہ تعالیٰ۔"

یہ قاعدہ متفق علیہ ہے اس کے لیے ملاحظہ ہو۔

عمدۃ القاری 8/140،5/27۔8،9/303،150،جوہر نقی 1۔303،المجموع 5،232،التحریر لابن ھمام۔3،149،150،263،فتح القدیر شرح ھدیہ 2/95،96،1/212،مرقاۃ شرح مشکوۃملاًعلی قاری 2/638،6/381،نصب الرایہ 1/413،وحاشیہ نصب الرایہ2/271، غیرمقلدین سےلاجواب سوالات ص: 49 فتح الباری /204،512،2/274،9/314،المقنع /125، 3المستصفیٰ1/131،تدریب الراوی 1/97فتح المغیث للسخاوی1/125،الفیہ سیوطی ص: 21۔ 1الکفایہ ص: 420شرح نخبۃ الکفر ص: 110،111،الباعث الحثیث ص: 44قواعد التحدیث ص:144ارشاد الفحول ص: 93،المغنیٰ لا بن قدامہ 3/403،407،بذل المجہود 2/126،مقدمہ صحیح البخاری للسہار نفوری ص10وغیرھا)

لہٰذا اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول تھا۔ 

2۔ابو امامہ بن سہیل بن حنیف فرماتے ہیں:

"أَنَّ السُّنَّةَ في الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَازَةِ أَنْ يُكَبِّرَ الإِمَامُ ، ثُمَّ يَقْرَأُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ بَعْدَ التَّكْبِيرَةِ الأُولَى سِرًّا في نَفْسِهِ ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَيُخْلِصُ الدُّعَاءَ لِلْجَنَازَةِ في التَّكْبِيرَاتِ لاَ يَقْرَأُ في شَيْءٍ مِنْهُنَّ ، ثُمَّ يُسَلِّمُ سِرًّا في نَفْسِهِ"

(عبد الرزاق 3/489،490،(2428)المنتقیٰ لا بن الجارود(540)فضل الصلاۃعلی النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  لاسماعیل القاضی (94)فتح الباری 3/203،204،وقال :اسنادہ صحیح نسائی کتاب الجنائز (1988)الاوسط لا بن المنذر 5/437)

"نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلی تکبیر کہیں پھر سورہ فاتحہ پڑھیں پھر (دوسری تکبیر کے بعد ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھیں پھر (تیسری تکبیر کے بعد)میت کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کریں پہلی تکبیر کے سوا کسی میں قرآءت نہ کریں پھر آہستہ سے دائیں جانب سلام پھیر دیں۔"

3۔أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، وَكَانَ مِنْ كُبَرَاءِ الْأَنْصَارِ وَعُلَمَائِهِمْ , وَأَبْنَاءِ الَّذِينَ شَهِدُوا بَدْرًا , مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَخبَرُهُ أَنَّ السُّنَّةَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجِنَازَةِ أَنْ يُكَبِّرَ الْإِمَامُ ثُمَّ يَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ بَعْدَ التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى سِرًّا فِي نَفْسِهِ

(شرح معانی الآثار 1/500مستدرک حاکم 1/360،بیہقی 4/40،39،حاکم کی روایت میں فاتحہ کا ذکر نہیں۔ اور عدم ذکر نفی کو لازم نہیں جبکہ طحاوی وغیرہ میں اسی حدیث کے اندر فاتحہ کا ذکر ہے اسے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے)

"ابو امامہ بن سہیل بن خنیف سے روایت ہے اور وہ انصار کے بڑے لوگوں اور علماء میں سے تھے اور ان صحابہ کے بیٹوں میں سے ہیں جو بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ شریک تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کسی نے انہیں خبر دی کہ نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ امام تکبیر کہے پھر فاتحہ آہستہ پڑھے پھر نماز کو باقی تین تکبیروں میں ختم کرے۔"

ان صحیح احادیث کے علاوہ اور بھی کئی احادیث نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں مگر ان کی اسانید کمزور ہیں اور وہ بطور تائید نقل کرتا ہوں کیونکہ اصل مسئلہ تو احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔

1۔اُم عفیف رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی روایت طبرانی میں موجود ہے اس کی سند میں عبد المنعم ابو سعید کمزور راوی ہے(مجمع الزوائد 3/33)

2۔اُم شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی حدیث کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا۔ابن ماجہ (1496)اس کی سند میں شہر بن حوشب متکلم فیہ راوی ہیں ۔ اسے امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  اور یحییٰ  بن معین رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہما نے ثقہ کہا ہے اور بیہقی  و نسائی وغیر ہما نے کمزور قرار دیا ہے ۔

3۔اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جب تم نماز جنازہ پڑھو تو سورہ فاتحہ پڑھو اسے طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے ۔اس کی سند میں معلی بن حمران ہے اس کے حالات معلوم نہیں۔(مجمع الزوائد 3/32)

4۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھی ۔(ترمذی وابن ماجہ وغیرہما)اس کی سند میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان ضعیف راوی ہے۔

5۔جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے میت پر چار تکبیریں کہیں اور پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھی ۔

(کتاب الام 1/239،مستدرک حاکم 1/358۔اس کی سند میں ابراہیم بن ابی یحییٰ متروک اور عبد اللہ بن محمد بن عقیل متکلم فیہ راوی ہیں)

6۔ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے جنازہ میں چار مرتبہ فاتحہ پڑھی (طبرانی اوسط ) اس کی سند میں ناھض بن القاسم ہے اس کے حالات نہیں ملے۔

(مجمع الزوائد 3/33)اور مجمع الزوائد کی دوسری طبع 3/35،میں یہ احادیث موجود ہیں)

مذکورہ بالا چھ روایات بطور شواہد اور تائید ذکر کی گئی ہیں کیونکہ ضعیف روایت بطور متابع اور شواہد پیش کی جاسکتی ہیں۔

اب حنفی حضرات کے چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔

1۔متاخرین احناف میں سے حسن الشرنبلالی نے اس موضوع پر مستقل ایک کتاب بنام"النظم المستطاب الحکم القراء فی صلاۃ الجنائزۃ بام الکتاب " لکھی اور فاتحہ کو مکروہ کہنے والوں کا تسلی بخش رد کیا۔ ملاحظہ ہو۔(التعلیق الممجدص:169)

2۔علامہ عبدالحئی لکھنؤی  رحمۃ اللہ علیہ  علامہ شرنبلالی کی کتاب کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔

"هذا هو الاوليٰ لثبوت ذلك عن رسول الله صلي الله عليه وسلم واصحابه "

(التعلیق الممجدص:169)

"نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ہی اولیٰ ہے اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے یہ ثابت ہے۔"

3۔نیز علامہ عبد الحئی لکھنؤی حنفی امام الکلام ص: 341۔میں رقم طراز ہیں۔

"وقد صنف حسن الشرنبلالي من متأخري الحنفية في هذه المسألة رسالة سماها "النظم المستطاب لحكم القراءة في صلاة الجنازة بأم الكتاب وحقق فيها أن القراءة أولى من ترك القراءة، ولا دليل على الكراهة، قال فيها:"قال الشافعي واحمد:تفرض الفاتحة و الصلاة علي النبي صلي الله عليه وسلم والدعاء ودارالامر من ائمتنا في النص علي عدم جواز القراءة والنص علي كراهتها وقد نصوا علي استحباب مراعاة الخلاف في كثير من المسائل ولم ارنصا قاطعاً للمنع مقتضياً لعدم جواز قراءة الفاتحة في صلاة الجنازة"(امام الکلام ص:341،342،ط جدہ)

"علامہ شرنبلالی حنفی نے اس مسئلہ میں مستقل ایک رسالہ تصنیف کیا ہے۔جس کا نام ""النظم المستطاب الحکم القراء فی صلاۃ الجنائزۃ بام الکتاب "ہے اور اس میں انھوں نے تحقیق کی ہے کہ نماز جنازہ میں قرآءت ترک کرنے سے قراء ۃ کرنا اولیٰ ہے اور اس کے مکروہ ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔ اسی رسالہ میں علامہ شرنبلالی نے کہا :امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ   اور امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا فاتحہ درود اور دعا فرض ہے ہمارے آئمہ کی تحقیق کامداریہ ہے کہ فاتحہ کی قراءت کے ناجائز اور مکروہ ہونے پر نص وارد ہے اور اسی طرح بہت سارے مسائل میں اختلاف کی رعایت کے استحباب پر بھی ہمارے آئمہ نے تصریح کی ہے اور میں نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے ناجائز ہونے پر کوئی نص قطعی نہیں دیکھی۔"

4۔علامہ عینی حنفی عمدۃ القاری 8/139میں فرماتے ہیں ۔

"قد اختلفوا في مشروعية قراءة الفاتحة علي الجنازة فنقل ابن المنذر عن ابن مسعود والحسن بن علي وابن الزبير والمسور بن مخرمة مشروعيتها وبه قال الشافعي واسحاق "

"آئمہ کا نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی مشروعیت میں اختلاف ہے امام ابن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ،الحسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مسوربن مخرمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نماز جنازہ میں فاتحہ کا پڑھنا نقل کیا ہے اور یہی بات امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور امام اسحاق  بن راہویہ  رحمۃ اللہ علیہ نے کہی ہے۔"

تقریباً یہی بات شرح السنہ 5/354 میں امام بغوی نے ذکر کی ہے اور اس میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور عبد اللہ بن عمرو العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور سہل بن حنیف  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا بھی ذکر ہے۔

5۔قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ  اپنے وصیت نامہ میں فرماتے ہیں۔

"وبعد تكبير اولي سورة فاتحه هم خوانند"

(مالا بدمنہ ص: 138)

"تکبیر اولیٰ کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھیں ۔

6۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"ومن السنة قراءة فاتحة الكتاب لانها خيراالادعية واجمعها "

(حجۃ اللہ البالغۃ 2/36)

"نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قرآءت کرنا سنت میں سے ہے، اس لیے کہ یہ تمام دعاؤں سے بہترین اور جامع ہے۔"

7۔شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی غنیۃ الطالبین 2/133میں لکھا ہے کہ پہلی تکبیر میں سورۃ فاتحہ پڑھی جائے۔

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ اور آثار صریحہ اور اکابر علمائے احناف کے فتاویٰ سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین اور آئمہ دین فقہاء محدثین  رحمۃ اللہ علیہ  کا طریقہ اور معمول ہے اور اس کے مکروہ ہونے پر کوئی واضح اور صریح دلیل موجود نہیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الجنائز۔صفحہ نمبر 242

محدث فتویٰ

تبصرے