سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(33) قبر پر نماز جنازہ ادا کرنا

  • 20849
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 843

سوال

(33) قبر پر نماز جنازہ ادا کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قبر پر نماز جنازہ ادا کرنا 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قبر پر نماز جنازہ ادا کرنا بھی شرعاً جائز و درست ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کے متعلق کئی ایک احادیث صحیحہ صریحہ مروی ہیں ۔ چند ایک ذکر کرتاہوں۔

1۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔

"عَنْ ‏‏أَبِي هُرَيْرَةَ ‏‏أَنَّ ‏رَجُلًا أَسْوَدَ ‏، ‏أَوْ امْرَأَةً سَوْدَاءَ ،‏ ‏كَانَ يَقُمُّ الْمَسْجِدَ ؛ فَمَاتَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ ‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‏عَنْهُ فَقَالُوا : مَاتَ ، قَالَ : أَفَلَا كُنْتُمْ ‏‏آذَنْتُمُونِي ‏بِهِ ‏؟ ‏دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ ‏، ‏أَوْ قَالَ : قَبْرِهَا ‏، فَأَتَى قَبْرَهَا فَصَلَّى عَلَيْهَا "

(بخاری کتاب الصلاۃ (458،460۔و کتاب الجنائز (1327)ابو داؤد کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی القبر (3203) مسلم کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی القبر(956)ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلاۃ علی القبر(1527)

"ایک سیاہ فام آدمی یا عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا تو وہ فوت ہو گیا (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے اس کے معاملے کو ہلکا سمجھا اور جنازہ وغیرہ پڑھا کر دفن کر دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک دن) اس کے بارے میں پوچھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے بتایا وہ فوت ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم نے مجھے اس کے بارے میں اطلاع کیوں نہیں دی؟ اس کی قبر پر میری راہنمائی کرو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ ادا کی۔"

2۔ امام شعبی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:۔

" قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ، مَرَّ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَلَى قَبْرٍ مَنْبُوذٍ، فَأَمَّهُمْ وَصَفُّوا عَلَيْهِ . فَقُلْتُ يَا أَبَا عَمْرٍو مَنْ حَدَّثَكَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ .‏"

(بخاری کتاب الاذان (857)مسلم کتاب الجنائز (954)

"مجھے اس شخص نے خبر دی جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک اکیلی قبر کے پاس سے گزرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے (صاحب قبر کے جنازے کے لیے)صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی امامت کی اور قبر پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے صفیں باندھیں (راوی حدیث سلیمان شیبانی کہتے ہیں)میں نے کہا اے ابو عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ !آپ کو کس نے یہ حدیث بیان کی ہے؟تو انھوں نے کہا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے۔"

3۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے دوسرے مقام پر اس کی کچھ تفصیل یوں ہے۔

"مَاتَ إِنْسَانٌ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَمَاتَ بِاللَّيْلِ، فَدَفَنُوهُ لَيْلًا، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: «مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تُعْلِمُونِي؟» قَالُوا: كَانَ اللَّيْلُ فَكَرِهْنَا، وَكَانَتْ ظُلْمَةٌ أَنْ نَشُقَّ عَلَيْكَ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ"

(بخاری کتاب الجنائز باب الاذان بالجنائز ۃ(1247)

"ایک ایسا انسان فوت ہو گیا جس کی عیادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کیا کرتے تھے وہ رات کے وقت فوت ہوا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اسے رات کے وقت دفن کر دیا جب صبح ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو خبردی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:مجھے اطلاع دینے میں تمھیں کون سی چیز مانع ہوئی؟ تو انھوں نے کہا اندھیری رات تھی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر مشقت کو ناپسند کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ ادا کی۔"

(یہ حدیث نسائی کتاب الجنائز (2023)ابو داؤد کتاب الجنائز (3196)ترمذی کتاب الجنائز(1037)ابن ماجہ کتاب الجنائز (1530)مسند ابی یعلیٰ ( 2523) وغیرہ میں بھی موجود ہے)

4۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔

"أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم صَلَّى عَلَى قَبْرٍ"

(مسلم کتاب الجنائز (955)مسند ابی یعلیٰ (3454)مسند احمد 3/130ابن ماجہ (1531) بیہقی 4/46دارقطنی2/77)

"انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبر پر نماز جنازہ ادا کی۔"

5۔حضرت جابر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے۔

"أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم صَلَّى عَلَى قَبْرٍ بَعْدَ مَا دُفِنَ"

(نسائی کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی القبر(2024)

"یقیناًً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک عورت کی قبر پر اس کے دفن کر دئیے جانے کے بعد نماز جنازہ ادا کی۔"

6۔ابن ابی ملیکہ  سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مکہ سے چھ میل کے فاصلے پر فوت ہو گئے ہم انہیں اٹھا کر مکہ لائے انہیں دفنا دیا۔ اس کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہمارے پاس تشریف لائیں اور اس بات پر انھوں نے برا بھلا کہا۔ پھر فرمایا میرے بھائی کی قبر کہاں ہے؟ ہم نے اس پر راہنمائی کی۔ پھر وہ تشریف لائیں اور اس پر نماز جنازہ ادا کی۔

(عبد الرزاق باب الصلاۃ علی المیت بعد مایدفن3/518)ابن ابی شیہ 4/149،طبع ھند 3/361،التمہید لا بن عبدالبر6/261)

امام ابن عبد البررقمطراز ہیں۔

"وقال الشافعي وأصحابه من فاتته الصلاة على الجنازة صلى على القبر إن شاء الله وهو رأى عبد الله بن وهب ومحمد بن عبد الله بن عبد الحكم وهو قول احمد بن حنبل واسحاق بن راهوية وداود بن علي وسائر اصحاب الحديث قال احمد بن حنبل:رويت الصلاة علي القبر عن النبي صلي الله عليه وسلم من ستة وجوه حسان كلها"(التمہید لا بن عبد البر6/261۔الاوسط لا بن المنذر5/413)

"امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور ان کے اصحاب نے کہا جس کی نماز جنازہ فوت ہو جائے وہ قبر پر ادا کرے ان شاء اللہ ۔ یہی رائے ،عبداللہ بن وہب اور محمد بن عبداللہ بن عبد الحکیم کی ہے اور یہی قول امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ  امام داؤد بن علی رحمۃ اللہ علیہ  اور تمام اہل حدیث کا ہے ۔ امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے کے بارے میں چھ اچھی سندوں سے احادیث روایت کی گئی ہیں۔"

یہ چھ احادیث سہل بن حنیف  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ،انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بیان کی گئی ہیں جن کی تفصیل "التمہید 6/263۔276۔میں موجود ہے ۔

امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

"من صلى على قبر، أو على جنازة قد صلي عليها؛ فمباح له ذلك؛ لأنه قد فعل خيراً لم يحظره الله ولا رسوله، ولا اتفق الجميع على المنع منه، وقد قال الله تعالى:(( وَافْعَلُوا الْخَيْرَ)) [ الحج : 77] ، وقد صلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - على قبر، ولم يأت عنه نسخه، ولا اتفق الجميع على المنع منه، فمن فعل فغير حرج ، ولا معنَّف، بل هو في حل وسعة وأجر جزيل إن شاء الله، إلا أنه ما قدم عَهْدُه فمكروه الصلاة عليه؛ لأنه لم يأت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - ولا عن أصحابه أنهم صلوا على القبر إلا بحدثان ذلك، وأكثر ما روي فيه شهر" إن شاء الله"،

(التمہید لا بن عبد البر6/278،278)

" جس آدمی نے قبر پر نماز جنازہ ادا کی یا ایسی میت پر جس کا جنازہ پڑھا جا چکا ہو تو اس کے لیے یہ مباح ہے۔ اس لیے کہ اس نے خیر کاکام کیا ہے جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع نہیں کیا اور نہ ہی اس کی ممانعت پر سب کا اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے(نیکی کے کام کرو)اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے یقیناً قبر پر نماز جنازہ ادا کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کا نسخ ثابت نہیں۔ اور ہم متبع سنت ہیں ، بدعتی نہیں ۔ الحمد اللہ۔"

امام ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"ويصلي علي القبر لان  النبي صلي الله عليه وسلم صلي عليه"

 (الاقناع 1/158)

"اور قبر پر نماز جنازہ ادا کی جائے گی اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبر پر نماز جنازہ ادا کی ہے۔"

علامہ عبید اللہ مبارکپوری  رحمۃ اللہ علیہ  عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں۔

"وفي الحديث ايضاً دليل علي صحة الصلاة علي القبر بعد دفن الميت سواء اُصلي عليه قبل الدفن ام لاوبه قال :أكثر أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم ، روي ذلك عن أبي موسى ، وابن عمر ، وعائشة رضي الله عنهم وإليه ذهب الأوزاعي ، والشافعي  واحمد واسحاق وابن وهب وداود وسائر اصحاب الحديث ويدل لهم ايضاً احاديث من بين صحاح وحسان وردت في الباب عن جماعة من الصحابة اشار اليها الحافظ في التلخيص ص:١٦٢"

(مرعاۃ المفاتیح 5/390)

"اس حدیث میں دفن کے بعد قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے کی صحت پر دلیل ہے۔ خواہ دفن سے قبل اس پر جنازہ پڑھا گیا ہو یا نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  وغیرہم کا یہی قول ہے۔ اور یہ بات ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ،علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ، ابن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور قتادہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی گئی ہے ۔اور اسی بات کی طرف امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام عبد اللہ بن وھب رحمۃ اللہ علیہ ، امام داؤدظاہری رحمۃ اللہ علیہ  اور تمام اہلحدیث گئے ہیں۔اور ان کے مؤقف پر اسی  طرح کئی ایک صحیح اور حسن احادیث دلالت کرتی ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی ایک جماعت سے اس مسئلہ میں احادیث وارد ہوئی ہیں جن کی طرف حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  نے التلخیص الخبیر1/162میں اشارہ کیا ہے۔"

حنفی علماء امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے فضائل میں یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے دفن کرنے کے بعد بھی بیس دن تک لوگوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔

(سیرۃ نعمان ص:42،مولانا شبلی بحوالہ مقام ابی حنیفہ ص: 99،مولوی سرفرازصفدر)

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ صریحہ متصلہ اور آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور آئمہ دین  رحمۃ اللہ علیہ کے فتاویٰ سے معلوم ہوا کہ قبر پر نمازجنازہ ادا کرنا بالکل صحیح و درست ہے۔ اس کا نسخ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت نہیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الجنائز۔صفحہ نمبر 237

محدث فتویٰ

تبصرے