سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(32) مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا

  • 20848
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 928

سوال

(32) مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا درست ہے؟جنازہ گاہ میں نماز جنازہ ادا کرنے کی بنسبت مسجد میں زیادہ فضیلت ہے یا نہیں ۔علاوہ ازیں قبر پر نماز جنازہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟(عبد اللہ،منڈی بہاؤالدین )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز جنازہ مسجد میں ادا کرنا جائز و درست ہے اس کے دلائل درج ذیل ہیں۔

1۔سید ہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سے روایت ہے۔

"عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا لَمَّا تُوُفِّيَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ  صلي الله عليه وسلم أَنْ يَمُرُّوا بِجَنَازَتِهِ فِي الْمَسْجِدِ فَيُصَلِّينَ عَلَيْهِ فَفَعَلُوا فَوُقِفَ بِهِ عَلَى حُجَرِهِنَّ يُصَلِّينَ عَلَيْهِ أُخْرِجَ بِهِ مِنْ بَابِ الْجَنَائِزِ الَّذِي كَانَ إِلَى الْمَقَاعِدِ فَبَلَغَهُنَّ أَنَّ النَّاسَ عَابُوا ذَلِكَ وَقَالُوا مَا كَانَتْ الْجَنَائِزُ يُدْخَلُ بِهَا الْمَسْجِدَ فَبَلَغَ ذَلِكَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ مَا أَسْرَعَ النَّاسَ إِلَى أَنْ يَعِيبُوا مَا لَا عِلْمَ لَهُمْ بِهِ عَابُوا عَلَيْنَا أَنْ يُمَرَّ بِجَنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم عَلَى سُهَيْلِ بْنِ بَيْضَاءَ إِلَّا فِي جَوْفِ الْمَسْجِدِ. "

(مسلم کتاب الجنائز باب الصلوۃ علی الجنائزۃ فی المسجد (99۔973)مع شرح النووی 7/33موطا 1/119مسند احمد 6/79،133،169،261۔ابو داؤد

کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی الجنازۃ فی المسجد (3190)ترمذی کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلاۃ علی المیت فی المسجد (1035)نسائی کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی الجنائزۃ فی المسجد 4/68۔(1966،1967)ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلاۃ علی الجنائز فی المسجد 1/486(1518)شرح معانی الاثار 1/330بیہقی 4/51الاوسط لا بن منذر5/416عبدالرزاق 3/526(6578)

شرح السنۃ 5/350۔351۔(1491،1492)ابن ابی شیہ 3/44(11970)

"جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فوت ہوئے تو زواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے پیغام بھیجا کہ ان کا جنازہ مسجد میں لائیں تاکہ وہ بھی ان پر نماز جنازہ پڑھ لیں۔سو انھوں نے ایسا ہی کیا۔ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے حجروں کے پاس جنازہ رکھا گیا کہ وہ بھی نماز پڑھ لیں اور جنازکو باب الجنائز سے جو مقاعد کی طرف تھا، نکالا گیا۔ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین  کو یہ بات پہنچی کہ لوگوں نے اس پر نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ جنازے مسجد میں نہیں لائے جاتے ۔ یہ بات عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو پہنچی تو انھوں نے فرمایا کہ لوگ جلدی عیب لگانے لگ جاتے ہیں جس بات کا انہیں علم نہیں ہوتا۔انھوں نے ہم پر عیب لگایا کہ جنازہ مسجد میں لایا گیا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء کا جنازہ مسجد میں ادا کیا تھا۔"

نیز ابو داؤد مسلم اور بیہقی میں سہیل  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ساتھ ان کے بھائی سہل  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا بھی ذکر ہے۔ یعنی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سہیل اور ان کے بھائی سہل  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھائی۔

علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ  ابو داؤد کی شرح عون المعبود میں رقم طراز ہیں۔

"هذان الحديثان يدلان على مشروعية الصلاة على الجنائز في المسجد قال الحافظ في الفتح وبه قال الجمهور" (عون المعبود 3/182)

"یہ دونوں حدیثیں مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنے کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں یہی قول جمہور آئمہ محدثین  رحمۃ اللہ علیہ  کا ہے۔(نیز ملاحظہ ہو فتح الباری 3/199)

امام نووی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتےہیں۔

"وفي هذا الحديث دليل للشافعي والأكثرين في جواز الصلاة على الميت في المسجد، وممن قال به أحمد وإسحاق"

(شرح نووی للمسلم 7/34)

"اس حدیث میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور اکثر فقہاء و محدثین کی دلیل ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے اور یہی قول امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ  کاہے۔"

علامہ عبید اللہ الرحمانی مبارکپوری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"والحديث يدل على جواز إدخال الميت إلى المسجد والصلاة عليه فيه وبه قال الشافعي وأحمد وإسحاق والجمهور"

(مرعاۃالمفاتیح 5/386۔387نیز دیکھیں تحفۃ الحوذی 2/146)

"مذکورہ حدیث میت کو مسجد میں داخل کرنے اور اس پر مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے پر دلالت کرتی ہے اور یہی قول امام شافعی ، امام احمد،امام اسحق بن راہویہ اور جمہور فقہاء محدثین  رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔

2۔عروہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"ما صلي علي ابي بكر الا في المسجد"

(ابن ابی شیہ 3/44(11967)مصنف عبد الرزاق 3/526(657776)شرح السنہ 5/351۔الاوسط لا بن منذر 5/415الاقناع

1/160،ابن سعد 3/206،207۔بیہقی کتاب الجنائز4/52۔

"ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر جنازہ مسجد میں ہی پڑھا گیا۔"

3۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں:

"صلي علي عمر بن خطاب في المسجد"

(مؤطا مالک کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی الجناز علی فی المسجد 1/199 ابن ابی شیہ کتاب الجنائز 3/44(11969)عبدالرزاق 3/526(6577)الاوسط لا بن منذر5/415۔بیہقی 4/52طحاوی 1/492۔شرح السنہ 5/351الاقناع لا بن منذر 1/760۔

"عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر نماز جنازہ مسجد میں ادا کی گئی ہے۔"

بیہقی اور فتح الباری 3/199 وغیرہما میں ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا جنازہ صہیب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے پڑھایا ۔

مذکورہ بالا احدیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا صحیح و درست ہے بلکہ اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا اجماع ہے کیونکہ خلیفہ اول حضرت ابو بکرصدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے جنازہ میں ہزاروں انصارو مہاجرین صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے شرکت کی کسی نے بھی انکار نہیں کیا اور ان کے جنازے مسجد میں ادا کیے گئے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  اور ابو بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے جنازے کی ادائیگی کا مسجد میں ذکر کر کے فرماتے ہیں۔"وهذا يقتضي الإجماع على جواز ذلك" صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا خلفاء کے مسجد میں جنازے ادا کرنے کا عمل اس بات کا تقاضا کرتا ہےکہ مسجد میں جنازہ ادا کرنا اجماعی طور پر جائز ہے۔

بعض آئمہ نے مساجد میں جنازہ ادا کرنا مکروہ قراردیا ہے جس کی دلیل یہ روایت پیش کرتے ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نےارشاد فرمایا۔

( مَنْ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ )

(ابو داؤد کتاب الجنائزباب الصلاۃ علی الجنائز ۃ فی المسجد (3191) ابن ماجہ (1517)عبدالرزاق 3/527ابن ابی شیہ 3/44۔(1197)کتاب المجروحین لا بن حبان 1/366الکامل لا بن عدی 4/1373بیہقی 4/52۔حلیۃالاولیاء 7/93مسند طیالسی1/165)

"جس نے مسجد میں جنازہ پڑھا اس پر کوئی چیز نہیں۔"

بعض روایتوں میں فلاشیء لہ ہے ینی اس کے لیے کچھ نہیں ۔

اولاً:اس روایت کو امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  ،امام ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ ،امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ ، امام خطابی  رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ ، امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ،امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ ، وغیرھم نے ضعیف قرار دیا ہے۔مرعاۃ المفاتیح 5/372۔شرح السنہ 5/352۔شرح مسلم للنووی 7/134۔اس کی سند میں صالح بن نبھان مولی التوء مہ کا تفرد ہے۔اگرچہ صدوق ہے مگر اسے آخر میں اختلاط ہو گیا تھا۔یہ روایت اس سے ابن ابی ذئب نے بیان کی ہے اور اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس کا سماع صالح سے اختلاط سے پہلے کا ہے یا بعد کا۔ امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا :اس سے ابن ابی ذئب نے بڑھاپے کے سبب عقل فاسد ہونے سے پہلے سنا ہے۔یہی بات امام علی بن مدینی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہی ہے۔ امام جوزجانی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:آخر عمر میں اس کا حافظ متغیر ہو گیا تھا اور ابن ابی ذئب کی روایت اس سے مقبول ہے اور اس کا سماع قدیم ہے۔ امام ابن عدی نے فرمایا:جب اس سے قدیم شاگرد ابن جریج اور ابن ابی ذئب جیسے روایت کریں تو کوئی حرج نہیں ۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے ازمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  از امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نقل کیا ہے ۔ ابن ابی ذئب نے صالح سے آخر عمر میں سنا ہے اور اس سے منکر روایت بیان کی ہے۔ ابن عدی نے یہ روایت اس کی منکرات میں شمار کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ابن ابی ذئب نے صالح سے قبل از اختلاط اور بعد از اختلاط سماع کیا ہے۔ اور یہ معلوم نہیں کہ اس نے یہ روایت اس سے اختلاط سے پہلے سنی ہے یا بعد میں۔ امام ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:اس سکی آخری روایت قدیم روایت سے خلط ملط ہو گئی ہے اور امتیاز نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ واجب الترک ہے۔ اس بنا پر یہ روایت قابل حجت نہیں۔

(ملاحظہ ہو مرعاۃ المفاتیح 5/372،373۔الکامل لا بن عدی 4/174کتاب المجروحین 1/366نصب الرایہ 1/357،2/676۔تاریخ یحییٰ بن معین2/266بیہقی 4/52،1/303۔)

ثانیا:سنن ابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ  کے محقق و مسموع اور مشہور نسخوں میں مَنْ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ کے الفاظ ہیں۔یعنی جس نے مسجد میں نماز جنازہ ادا کی اس پر کوئی گناہ نہیں۔ اس صورت میں مخالفین کی یہ دلیل نہیں بن سکتی۔

ثالثاً:اگر یہ روایت فَلَا شَيْءَ  لهکے الفاظ کے ساتھ ثابت ہو جائے تو اس کی تاویل فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ کے ساتھ واجب ہے تاکہ دونوں احادیث کو جمع کر لیا جائے اور تضاد و تعارض نہ رہے۔ اور لہ کبھی علیہ کے معنی میں استعمال ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَإِن أَسَأتُم فَلَها...﴿٧﴾... سورةالإسراء

"اگر تم نے برائی کی تو اپنے ہی نفس کے خلاف کی۔"

(شرح مسلم للنووی وغیرہ :7/34،35)

رابعاً:اگر ثابت ہو جائے تو یہ روایت اس آدمی کے حق میں اجر کی کمی پر محمول ہے جس نے مسجد میں نماز جنازہ ادا کی پھر قبرستان میں ساتھ نہ گیابلکہ وہاں سے ہی واپس پلٹ آیا۔ کیونکہ میت کا جنازہ پڑھنا اور اس کو دفن کرنا دو قیراط کے برابر اجر رکھتا ہےجیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنِ اتَّبَعَ جَنَازَةَ مُسْلِمٍ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، وَكَانَ مَعَهُ حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهَا وَيَفْرُغَ مِنْ دَفْنِهَا، فَإِنَّهُ يَرْجِعُ مِنَ الأَجْرِ بِقِيرَاطَيْنِ، كُلُّ قِيرَاطٍ مِثْلُ أُحُدٍ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيْهَا ثُمَّ رَجَعَ قَبْلَ أَنْ تُدْفَنَ، فَإِنَّهُ يَرْجِعُ بِقِيرَاطٍ"

(مشکوۃ المصابیح کتاب الجنائز باب المشی بالجنازۃ والصلاۃ علیھا (1651)بخاری (1325) کتاب الجنائز باب من انتظرحتی تدفن ۔مسلم کتاب الجنائز باب فضل الصلاۃ علی الجنائز واتباعھا (945)

"جو آدمی کسی مسلمان کے جنازے کے پیچھے ایمان اور ثواب سمجھ کر گیا اور وہ اس پر جنازہ پڑھنے اور دفن کرنے کے وقت تک ساتھ رہا۔ وہ دو قیراط اجر لے کر لوٹتاہے۔ ہر قیراط اُحد پہاڑ کی مثل ہے اور جو جنازہ پڑھ کر دفن کرنے سے پہلے واپس لوٹ گیا۔ وہ ایک قیراط کے ساتھ لوٹتا ہے۔"

امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ  ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ زیادہ قدم چل کر جانے پر بھی ثواب ہے اس لحاظ سے کہ مسجد میں جنازہ پڑھنے والا جنازہ گاہ میں جنازہ پڑھنے والے کی نسبت سے منقصوص الاجر ہے(معالم السنن 4/325)امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"وهذا ضعيف الاسناد ويعد من افراد صالح مولي التوامة وان ثبت فيحتمل ان يكون المراد منه نقصان الأجر ، لأن الغالب أنه إذا صلى في المسجد ينصرف ، فلا يشهد دفنه ، ومن صلى عليها في الصحراء بحضرة القبور يشهد دفنه ، فيستكمل أجر القيراطين."(شرح السنہ 5/352)

اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی یہ حدیث "فلا شئي عليه اوله "ضعیف الاسناد ہے۔ اور یہ صالح مولی التوامہ کے تفردات میں سے شمار کی جاتی ہے اور اگر یہ ثابت ہو بھی جائے تو اس بات پر محمول ہے کہ اس سے مراد اجر کی کمی ہے اس لیے کہ اکثر اوقات ایسے ہی ہوتا ہے کہ آدمی جب مسجد میں جنازہ پڑھ لیتا ہے تو میت کے دفن میں حاضر نہیں ہوتا اور جو آدمی صحراء میں قبروں کی موجود گی میں جنازہ پڑھتا ہے تو وہ دفن میں شریک ہو کر دو قیراط اجر مکمل کر لیتا ہے۔

خامساً : اس کا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنے کی وجہ سے زائد اجر نہیں ملتا جیسا کہ فرض نماز مسجد میں ادا کرنے کی وجہ سے گھر کی نسبت بہت زیادہ اجر ہے لیکن نماز جنازہ کا اصل اجر باقی ہے۔ اگر یہ مفہوم مراد لیا جائے کہ نماز جنازہ مسجد میں ادا کرنے سے بالکل اجر نہیں ملتا تو یہ عبث ہے کیونکہ اوپر دلائل صحیحہ سے یہ بات ذکر کر دی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سہیل اور سہل  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی نماز جنازہ مسجد میں ادا کی۔ اسی طرح انصار و مہاجرین صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے خلیفہ بلا فصل ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور خلیفہ ثانی عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی نماز جنازہ مسجد میں ادا کی، اور اس پر کسی صحابی رسول نے انکار بھی نہیں کیا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز جنازہ مسجد میں ادا کرنا بالکل جائز و درست ہے۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا متروک العمل ہے۔ اس لیے کہ لوگوں نے سعد بن ابی وقاص کا جنازہ مسجد میں لانے پر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین پر انکار کیا اور یہ انکار کرنے والے لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  ہی تھے۔اس لیے مسجد میں جنازہ ادا کرنا  درست نہیں۔ لیکن یہ بات مردود ہے۔ اس لیے کہ جب عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے ان کی بات کا انکار کیا تو انھوں نے اسے تسلیم کر لیا اور جنازہ بعد میں لایا گیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو بات انکارکرنے والوں کو معلوم نہ تھی یا بھول چکی تھی سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو یاد تھی اور انھوں نے بر وقت بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سہل اور سہیل  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی نماز جنازہ مسجد میں ادا کی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے بتلانے پر کسی ایک صحابی  رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے بھی انکار نہیں کیا۔ پھر سید نا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور سید نا عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز جنازہ مسجد میں ادا کی گئی تو کبار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  موجود تھے سب نے جنازہ مسجد میں پڑھا اور کسی نے بھی انکار نہ فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنے پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  متفق تھے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الجنائز۔صفحہ نمبر 229

محدث فتویٰ

تبصرے