1۔کیا تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں فرض ہیں؟کیا اوقات مکروہہ میں پڑھی جاسکتی ہیں؟
2۔کیا نماز میں پہلے تشہد کے ساتھ درُود شریف پڑھنا چاہیے؟بعض لوگ پہلے قعدے میں تشہد کے ساتھ درُود شریف پڑھنے کو ،قرآن کی آیت: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا" (الاحزاب 33:56) سے اور اس حدیث سے جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درود پڑھنے کے بارے میں سوال کیاتھا،اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ضرور قراردیے ہیں جب کہ مسند احمد ،تلخیص ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور نصب الرایہ کی روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے قعدے میں صرف تشہد ہی پڑھیں گے۔بہرحال بحوالہ وضاحت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔فقط
طالب الدعوات:خادم العلماء بلال احمد غفرلہ،مہتمم جامعہ محمدیہ اہلحدیث گوالہ کالونی۔لاہور
1۔تحیۃ المسجد کی دورکعتیں اگرچہ فرض نہیں ہیں۔کیونکہ فرض صرف پانچ نمازیں ہیں لیکن ان کی اہمیت اس قدر ہے کہ خطبہ جمعہ کے دوران آنے والا بھی دورکعت پڑھ کر ہی بیٹھے گا۔حالانکہ اس وقت استماع اور انصات کی بطور خاص تاکید وارد ہے۔کتب احادیث میں قصہ سلیک غطفانی اس امر کی واضح دلیل ہے۔تحیۃ المسجد چونکہ انشائی نماز نہیں بلکہ سببی ہے اس لیے اس کو مکروہ اوقات میں پڑھنا بھی درست ہے جس طرح کے نماز جنازہ وغیرہ ہے بطور استدلالی حدیث کریب عن ام سلمہ پیش کی جاتی ہے۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو(مرعاۃ المفاتیح ،ج2 ص 51۔56)
2۔کسی بھی صحیح مرفوع متصل روایت میں پہلےتشہد میں درُود پڑھنے کی ممانعت نہیں بلکہ عموم حدیث کعب بن عجرۃ جواز پر دال ہے۔فرماتے ہیں۔
"أن النبي صلى الله عليه وسلم قال للصحابة لما سألوه عن كيفية الصلاة عليه؟ قال: ((قولوا: اللهم صل على محمد.......الخ"(تلخیص الجیر جزاءص268)
اور بعض صحیح روایات میں الفاظ یوں ہیں۔
"يعنی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس بات کا تو علم ہوگیا آپ پرسلام(یعنی تشہد میں) کیسے پڑھا جائے پس یہ فرمائیے کہ درُود کیسے پڑھیں،فرمایا کہو:
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"فلم يخص تشهدا دون تشهد, ففيه دليل على مشروعية الصلاة عليه في التشهد الأول أيضا0 وهو مذهب الإمام الشافعي كما نص عليه في كتابه "الأم", وهو الصحيح عند أصحابه كما صرح به النووي في "المجموع"(3/ 460) واستظهره في "الروضة"(1/ 263), طبع المكتب الإسلامي), وهو اختيار الوزير ابن هبيرة الحنبلي في "الإفصاح" كما نقله ابن رجب في "ذيل الطبقات"(1/ 280) وأقره0 وقد جاءت أحاديث كثيرة في الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم في "التشهد وليس فيها أيضا التخصيص المشار إليه, بل هي عامة تشمل كل تشهد وقد أوردتها في الأصل تعليقا,ولم أورد شيئا منها في المتن, لأنها ليست على شرطنا, وإن كانت من حيث المعنى يقوي بعضها بعضا, وليس للمانعين المخالفين أي دليل يصح أن يحتج به"(صفۃ الصلاۃ ص143۔143)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درُود پڑھنے کے لیے کسی ایک تشہد کو خاص نہیں کیا پس اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے تشہد میں بھی دُرود پڑھنا شروع ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کامسلک بھی یہی ہے جس طرح کہ"الام"میں منصوص ہے۔اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے اصحاب کے نزدیک بھی یہی بات صحیح ہے جس طرح کہ نووی نے المجموع(3/460)
میں تصریح کی ہے نیز بہت ساری احادیث میں تشہد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درُود کا تذکرہ موجود ہے لیکن ان میں مشارالیہ تخصیص کا نام ونشان تک نہیں بلکہ وہ عام اورہرتشہد کو شامل ہیں اور مخالفین کے پاس قابل احتجاج کوئی دلیل موجود نہیں"
اس سلسلےمیں مانعین کے بھی چند دلائل ہیں۔ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے جس طرح کہ سائل نے بھی ان کی نشاندہی کی ہے۔چنانچہ سنن ابوداود میں حدیث ہے۔
يعنی"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دورکعتوں میں ایسے ہوتے تھے گویا کہ گرم پتھر پر ہیں،ہم کہتے ابھی اٹھے۔"
اورترمذی کی روایت میں ہے شعبہ نے کہا پھر سعد نے کسی شے کے ساتھ اپنے ہونٹوں کوحرکت دی پس میں نے کہا۔حتیٰ یقوم وہ بھی کہہ رہے تھے حتیٰ یقوم۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اہل علم کا عمل اس حدیث کے مطابق ہے وہ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ آدمی پہلی دورکعتوں میں زیادہ دیر نہ بیٹھے اور پہلی دو رکعتوں میں تشہد سےزیادہ کچھ نہ پڑھے اور اگر کسی نے تشہد پر اضافہ کیا تو اس پر دوسجدہ سہو لازم ہوجاتے ہیں اس طرح شعبی وغیرہ سے بیان کیا گیا ہے۔نیز امام ترمذی حدیث بنا پر حکم لگاتے ہوئے رقم طراز ہیں۔
" هذا حديث حسن إلا أن أبا عبيدة لم يسمع من أبيه "یعنی یہ حدیث حسن درجہ کی ہے البتہ ابوعبیدہ کا اپنے باپ(عبداللہ) سے سماع ثابت نہیں۔"
اورعمرو بن مرہ کا بیان ہے میں نے ابوعبیدہ سے دریافت کیا تجھے عبداللہ سے کوئی شے یاد ہے،کہا مجھے کوئی شئی یاد نہیں عون المعبود(1/378) اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"وهذا منقطع لأن أبا عبيدة لم يسمع من أبيه"يعنی یہ حدیث منقطع ہے اس لیے کہ ابوعبیدۃ کا اپنے باپ سے سماع ثابت نہیں (تلخیص الجیر جز اص263) )لہذا یہ روایت قابل حجت نہ ٹھہری اور جہاں تک تعلق ہے اس روایت کا جومسند احمد اور ابن خزیمہ میں ہے۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوتشہد کی تعلیم دی پس جب وہ درمیانہ قعدہ میں بیٹھتے اور آخر قعدہ میں بیٹھتے تو بائیں ران پر بیٹھتے۔التحیات عبدہ ورسولہ تک پڑھتے۔پھر اگردرمیانے قعدہ میں ہوتے تو صرف تشہد پڑھ کر کھڑے ہوجاتے اور اگر اخیر میں ہوتے تو تشہد کے بعد جو اللہ چاہے دعا مانگتے۔پھر سلام پھیرتے (التلخیص 1/264) روایت یہ واضح طور پر اس بات پر دال ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قعدہ اولیٰ میں صرف تشہد پر اکتفاء کی ہے لیکن روایت موقوف ہے مرفوع نہیں۔
صاحب المراۃ فرماتے ہیں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بات کو اختیار کیا لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک درُود کااضافہ بھی درست ہے پھر وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ظاہر بات یہ ہے کہ نمازی تشہد پر اضافہ نہ کرے لیکن اگر کوئی اضافہ کردے تو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں کیونکہ کوئی شرعی دلیل اس بات پر قائم نہیں ہوسکی کہ قعدہ اول میں تشہد پرزیادتی کی صورت میں سجدہ سہو لازم ہے"
جملہ دلائل سے ظاہر ہے کہ علامہ موصوف کا استدلال صرف شواہد پر مبنی ہے۔بطور خاص کوئی صحیح مستند موجود نہیں۔جب کہ دوسری جانب واضح موقف ہے جو مصرح دلائل پر موقوف ہے۔مزید آنکہ :المنتقيٰ باب ما جاء في الصلوٰة علي رسول الله صلي الله عليه وسلم میں حدیث ہے۔
یعنی "بشیر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا اللہ نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردرُود کا حکم دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے درُود بھیجیں،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ..........الخ
اورمسند احمد میں ہے:
کہ"نماز میں ہم سلام تو پڑھتے ہیں اب ہمیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتادیجئے کہ ہم درُود کیسے پڑھیں؟
مقام ہذا توضیح وتفصیل کا عمل ہے پہلے اور دوسرے قعدہ میں درُود پڑھنے کے اعتبار سے فرق کی وضاحت نہ کرنا عموم جواز کی دلیل ہے اور علوم فقہ میں قاعدہ معروف ہے۔"تاخير البيان عن وقت الحاجة لايجوز "یعنی ضرورت کے وقت کسی شئے کی وضاحت نہ کرنا ناجائز ہے۔
اس سے معلوم ہوا پہلے تشہد میں درُود پڑھنا جائز ہے ۔واضح ہو کہ علماء کا ایک گروہ نماز میں درُود کے وجوب کاقائل ہے جب کہ جمہور علماء عدم وجوب کے قائل ہیں،علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے عدم وجوب کو اختیار کیاہے۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔نیل الاوطار(2/295۔296)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب