فرض نمازوں کے بعداجتماعی دُعا کےمتعلق مفصل وضاحت فرمائیں۔جو ہمارے بھائی فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کرتے ہیں وہ فتاویٰ نزیریہ کا حوالہ دیتے ہیں کہ اس میں اجتماعی دعا کا ثبوت موجود ہے۔آپ ہماری صحیح راہنمائی کریں۔(محمد زکریا دفتر مرکز الدعوۃ والارشاد کینٹ روڈ،تحصیل شور کوٹ سیال مارکیٹ)
موجودہ دور میں فرض نمازوں کے بعد امام اور مقتدی مل کر جو اجتماعی دعا کا اہتمام کرتے ہیں۔اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ثبوت بسند صحیح موجود نہیں،نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کوئی ایسی بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن رات میں پانچ نمازیں پڑھاتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ کی اقتداء میں پڑھتے تھے۔اگر اس دعا کا کہیں وجود ہوتا تو صحابہ کرام ذکر فرماتے جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے باقی نماز کے مسائل بیان کیے ہیں۔اس طرح کہیں بھی اس اجتماعی دُعا کا ذکر ضرور کیا جاتا۔بعض لوگ تو اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ جو لوگ اس مسئلہ پر عمل پیرا نہیں ہوتے انہیں بے عمل اور بہت بڑے گناہ کے مرتکب سمجھے بیٹھے ہیں۔جیسا کہ آپ کی ارسال کردہ تحریر سے عیاں ہے جو کہ ایک دینی رسالے میں مطبوعہ ہوئی۔بہرکیف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح تو کجا ضعیف حدیث میں بھی امام اور مقتدیوں کامل کر اہتمام کے ساتھ دُعا کرنا ثابت نہیں۔من الدعیٰ فعلیہ البیان۔البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نمازوں کے بعد کچھ اذکار منقول ہیں جو ہم بحمداللہ پڑھتے ہیں جن میں سے چند ایک مختصرا ذکر کرتا ہوں۔
1۔ہر نماز کے بعد تکبیر کہنا اور تین بار استغفار پڑھنا۔
2۔اللَّهُمَّ أنْتَ السَّلاَمُ، وَمِنْكَ السَّلاَمُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الجَلالِ والإكْرَامِ)پڑھنا۔
3۔معوذتین پڑھنا۔
5۔آیت الکرسی
6۔33مرتبہ سبحان اللہ،33 مرتبہ الحمدللہ،34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھنا وغیرہ۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب"باغیچہ جنت"اور "حصن المجاہد۔")
کئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات نماز کے بعد سلام پھیر کر جلد اُٹھ جاتے تھے۔جیسا کہ صحیح بخاری کتاب الاذان باب من صلی بالناس فذکر حاجۃ فتغطاھم (851) میں ہے کہ:
"عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز عصر ادا کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا،پھر جلدی سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین میں سے کسی ایک کے حجرے کی طرف لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے چلے گئے ۔الی آخرہ۔"
اسی طرح صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب تشبیک الاصابع فی المسجد وغیرہ(382) میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر وعصر کی نمازوں میں سے کوئی ایک نماز پڑھائی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیرا۔پس مسجد میں گاڑی ہوئی ایک لکڑی کی جانب کھڑے ہوکر اس پر ٹیک لگائی گویا آپ غصے میں ہیں۔"
ان ہر دو حدیثوں میں سَلَّمَ، فَقَامَ ہے۔اور اہل علم حضرات جانتے ہیں کہ "ف"عربی زبان میں تعقیب مع الوصل کے لیے ہوتی ہے جس سے معلوم ہواکہ آپ سلام پھیرتے ہی اُٹھ گئے۔لہذا اذکار مسنونہ تو نمازوں کے بعد ثابت ہیں اور کبھی کسی کام کی بنا پر سلام پھیرتے ہی اُٹھ جانا بھی درست ہے لیکن کسی صحیح حدیث میں امام اور مقتدیوں کامل کر اہتمام کے ساتھ دُعا کرنا وارد نہیں ہوا۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اذان اور اقامت کے درمیان تثویب کابدعت ہونا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وكذلك الجهر بالدعاء عقيب, الصلوات مثل دعاء الإمام والمأمومين جميعا عقيب الصلاة لم يكن ولكنه ثبت أنهم كانوا يجهرون بالذكر فالذكر ثابت ومن اعتقد مالم يدل عليه دليل شرعي قربة فهو مخطئ ظالم "(مختصر الفتاویٰ العصریۃ(40،41)
"اسی طرح نمازوں کے بعد جہری طور پر دُعا کرنا،جیسا کہ امام اور مقتدیوں کا مل کر نماز کے بعد دُعاکرنا ہے بدعت ہے۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نہ تھا۔لیکن ان سے یہ ثابت ہے کہ وہ جہری ذکر کرتے تھے۔پس ذکر کرنا ثابت ہے(نہ کہ اجتماعی دعا) جس نے کسی ایسی چیز کے نیک ہونے کا اعتقاد کرلیا جس پر کوئی دلیل شرعی موجود نہیں،وہ خطاکار وظالم ہے۔"
اسی طرح فتاویٰ الکبری 1/158 میں رقم طراز ہیں کہ:
"وأما دعاء الإمام والمأمومين جميعاً عقيب الصلاة فلم ينقل هذا أحد عن النبي صلي الله عليه وسلم فهنا شيئان: أحدهما دعاء المصلي المنفرد كدعاء المصلي صلاة الاستخارة وغيرها من الصلوات، ودعاء المصلي وحده إماما كان أو مأموما. والثاني دعاء الإمام والمأمومين جميعا، فهذا الثاني لا ريب أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يفعله في أعقاب المكتوبات كما كان يفعل الأذكار المأثورة عنه إذ لو فعل ذلك لنقله عنه أصحابه ثم التابعون ثم العلماء كما نقلوا ما هو دون ذلك;""بہرحال فرائض کے بعد امام اور مقتدیوں کامل کر دُعا کرنا تو کسی ایک آدمی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل نہیں کیا۔درحقیقت یہاں دو چیزیں ہیں:
1۔ایک نمازی کا دعا کرنا جیسا کہ نمازی دعائے استخارہ وغیرہ کرتا ہے خواہ نمازی امام ہو یامقتدی۔
2۔امام اور مقتدیوں کا مل کر دُعا کرنا،یہ دوسری چیز بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں کے بعد نہیں کی۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اذکار کیاکرتے تھے جو آپ سے(کتب احادیث میں) منقول ہیں۔اگر اس موقع پر آپ اجتماعی دُعا کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور نقل کرتے،پھر تابعین پھر دیگر علماء جیسا کہ انہوں نے اس سے کم درجہ کی اشیاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہیں۔"
اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے مجموعہ الفتاویٰ 22/519 میں اسے صراحت کے ساتھ بدعت قراردیاہے۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" وأما الدعاء بعد السلام من الصلاة مستقبل القبلة أو المأمومين ، فلم يكن ذلك من هديه صلى الله عليه وسلم أصلا ، ولا روي عنه بإسناد صحيح ولاحسن"(زاد المعاد ١/257)"باقی رہا نماز سے پہلے سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رخ بیٹھ کر یا مقتدیوں کی طرف پھر کر اجتماع دُعا کرنا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ قطعاً نہ تھا اور نہ ہی آپ سے بسند صحیح اور نہ ہی بسند حسن نقل کیا گیا ہے۔"
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی اس صراحت سے واضح ہواکہ اجتماعی دُعا جو ہمارے دور میں رائج ہے یہ بدعت ہے ،اس کا کوئی شرعی ثبوت موجود نہیں۔
دیوبندی علماء میں سے انور شاہ کاشمیری الُعرف الشذی ص:86 میں رقم طراز ہیں:
"نعم الادعية بعد الفريضة ثابتة كثيرا بلارفع اليدين وبدون الاجتماع""ہاں فرض نمازوں کے بعد بہت سی دُعائیں بغیر ہاتھ اُٹھائے اور اجتماعی شکل اختیار کیے ثابت ہیں۔"
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
"ولم تثبت شاكلة الجماعة فيها كما هو معروف الان""اور دعا کی اجتماعی ہیت جس کا آج کل رواج ہے،ثابت نہیں۔"
مولوی فیض اللہ بنگلہ دیشی لکھتے ہیں کہ شریعت میں ایسی دعاء کا اصلاً وقطعاً کوئی ثبوت نہیں۔نہ تعامل سلف سے نہ احادیث سے ۔خواہ وہ صحیح ہوں یا ضعیف یا موضوع اور نہ ہی کسی فقہ کی عبارت سے یہ دُعا یقیناً بدعت ہے۔(احکام الدعوات المروجہ ص:21 حوالہ دُعا بعد الفرائض کامسنون طریقہ ص:مفتی محمد ابراہیم صادق آبادی)اسی طرح(ملاحظہ ہو مولوی یوسف بنوری کی کتاب معارف السنن 3/124،409) مولوی رفیق دلاوری جو مولوی محمود حسن دیوبندی کا شاگرد ہے اپنی کتاب عمادالدین ص:397 میں لکھتا ہے کہ :الغرض فرض نماز کے سلام کے بعد امام اور مقتدیوں کا مل کر دُعا مانگنا بدعت سئیہ ہے۔
علاوہ ازیں اس مسئلہ پر اب دیوبندی علماء اہلحدیث علماء جیسا موقف اختیار کررہے ہیں۔رشیداحمد صاحب لدھیانوی نے اپنے احسن الفتاویٰ میں اسے بدعت شنیعہ قراردیاہے۔اس طرح ان کےشاگرد مفتی محمد ابراہیم نے"دعا بعدالفرائض کا مسنون طریقہ" لکھ کر حنفیہ میں جو بالخصوص یہ رواج ہے اس کی تردید کی ہے۔باقی رہا فتاویٰ نزیریہ میں اس موضوع پر پیش کردہ روایات کاتجزیہ تو اس کی مفصل بحث کےلیے صلوٰۃ الرسول مخرج(تخریج والی) کا مطالعہ کریں۔جس میں بالتفصیل ان روایات کا ضعف کیاگیا ہے اور ابن ابی شیبہ کی جو روایت فتاویٰ نذیریہ میں مرقوم ہے،اس میں رفع یدیہ ودُعا کے الفاظ مطبوعہ ابن ابی شیبہ میں نہیں ملتے۔باقی یہ مفصل روایت ترمذی وغیرہ مین موجود ہے۔اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔
بہرکیف اجتماعی دُعا کا اہتمام کرنا اورسے سنت سمجھنا غلط ہے۔فرض نمازوں کے بعد جو مسنون اذکار ہیں انہیں پڑھیں اور یاد کریں۔کئی لوگ بلاتحقیق یہ بات کہہ دیتے ہیں کہ اہلحدیث نماز کے بعد دُعا نہیں کرتے۔حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ہم نمازکے بعد کچھ وقت بیٹھ کر وہ مسنون اذکار وادعیہ جو ثابت ہیں ،پڑھتے ہیں۔اصل میں جو لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ امام صاحب نے نماز کے بعد ہاتھ نہیں اُٹھائے توفوراً فتویٰ عائد کردیتے ہیں کہ اس نے دُعا نہیں مانگی،دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھانا لازم نہیں بلکہ بغیر ہاتھ اُٹھائے بھی دُعا مانگنا درست ہے۔مثلاً مسجد میں آنے اور باہرجانے کی دُعا،بیت الخلاء میں داخل اور خارج ہونے کی دعائیں وغیرہ احادیث میں موجود ہیں۔لیکن یہاں کبھی کسی نے جھگڑا نہیں کیا کہ فلاں آدمی نے د عا نہیں مانگی اور نہ یہاں ہاتھ اُٹھائےجاتے ہیں۔حقیقت میں جب کسی چیز کاغلط رواج پڑ جاتا ہے تو پھر جب لوگ اس کے خلاف عمل دیکھتے ہیں تو وہ فوراً انکار کردیتے ہیں۔یہ طرزعمل بہتر نہیں ہے۔اگر مسئلہ کاعلم نہ ہوتو اس کی تحقیق کرلینی چاہیے اور اہلحدیث اسی بات کی دعوت دیتے ہیں کہ اندھا دھند پیروی نہ کی جائے بلکہ تحقیق والی لائن اختیار کی جائے۔ہرآدمی اپنی ہمت وبساط کے مطابق مسئلے کی تحقیق کرے،اہل علم سے رابطہ کرے،اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین
"آپ کے مسائل قرآن وسنت کی روشنی میں"کی جلد اول ص39 تا142 میں پہلے تشہد میں درود پڑھنے کامسئلہ ذکر کیا تھا اور ساتھ ہی یہ وعدہ کیا تھا کہ"جلد دوم"میں اس مسئلہ پر مفصل بحث کریں گے۔
ہماری جماعت کے معروف ومشہور علمی ہفت روزہ"الاعتصام" میں 1989ءمیں اس مسئلہ پر مختلف علمائے کرام کے مباحث شائع ہوئے تھے۔قارئین کرام کی معلومات کے لیے ان مباحث کی فوٹو اگلے صفحات میں دی جارہی ہے تاکہ فریقین کے موقف کو بآسانی سمجھ سکیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب