اگر کسی شخص کی فجر کی سنتیں فوت ہوجائیں تو کیا وہ نماز فجر کے بعد ادا کرسکتا ہے؟صحیح دلیل سے ہماری راہنمائی فرمائیں۔(ذوالفقار،سرگودھا)
اگر کسی آدمی کی فجر کی سنتیں کسی سبب کی بنا پر فوت ہوجائیں یعنی وہ انہیں وقت پر ادا نہ کرسکے تو نماز فجر کی ادائیگی کے بعد پڑھ سکتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریری سنت سے یہ بات واضح ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث وسنن تین اقسام پر مشتمل ہیں۔1۔قول۔2۔تقریر۔تقریر کا مفہوم یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی عمل سرانجام دیا گیا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہ کیا ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منع نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا ہے و گرنہ غلط کام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برقرار نہیں رکھ سکتے۔صحابی رسول قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:
(موارد الظمان (624) صحیح ابن خزیمہ باب الرخصۃ فی ان یصلی رکعتی الفجر بعد صلاۃ الصبح وقیل طلوع الشمس اذا فاقتا قبل صلاۃ الصبح(2/164)(1116) المستدرک 1/274،275 سنن دارقطنی 1/372 بیہقی 2/483 المحلی لابن حزم 3/112،113 نیل المقصود (1268)
"انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی اور نماز فجر سے پہلے دو رکعت سنت ادا نہیں کی تھیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر تو انہوں نے کھڑےہوکر فجر کی دو سنت ادا کیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف دیکھ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا انکار نہیں کیا۔"
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ا گر کسی شخص کی فجر کی سنت فوت ہوجائیں تو وہ نماز فجر کے بعد انہیں ادا کرسکتا ہے۔
علامہ ابو الحسن سندھی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"يدل علي الاذن في الركعتين بعد صلاة الفجر لمن فاتهما قبل ذلك"(حاشیہ سندھی علی ابن ماجہ 1/352)
"یہ حدیث جس آدمی کی فجر سے پہلے دو رکعت فوت ہوجائیں اسے فجر کی نماز کے بعد ادا کرنے کی اجازت پر دلالت کرتی ہے۔"
علامہ عبیداللہ رحمانی مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ رقم طرازہیں:
"قال ابن الملك : سكوته يدل على قضاء سنة الصبح بعد فرضه لمن لم يصلها قبله ، وبه قال الشافعي" (مرعاۃ المفاتیح 3/465)"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بات پر خاموش رہنا دلالت کرتا ہے کہ صبح کی سنت فرض ادا کرلینے کے بعد اس آدمی کے لیے قضا کرنا جائز ہے جس نے یہ سنت فرض سے پہلے ادا نہیں کی۔اور یہی قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔"
شیخ حسین بن محمود الزیدانی نے مشکاۃ کے حاشیہ المفاتیح میں ،شیخ علی بن صلاح الدین نے منہل الینابیع شرح المصابیح میں اور علامہ زینی نے شرح المصابیح میں بھی اسی طرح لکھا ہے۔ملاحظہ ہو(مرعاۃ المفاتیح 3/465)
ہمارے حنفی بھائیوں کا کہنا ہے کہ فرض کی ادائیگی کے بعد طلوع شمس تک سنت ادا نہیں کرسکتا اور اس کی دلیل ترمذی 2/287 (423) سے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے فجر کی دو رکعتیں نہیں پڑھیں وہ انہیں طلوع شمس کے بعد پڑھے۔"
اولاً:یہ روایت ضعیف ہے ۔اس کی سند میں قتادہ بن دعامہ السدوسی مدلس راوی ہیں اور یہ روایت منعن ہے جس کی بنا پر ضعیف ہے۔
ثانیاً:امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جن کے حنفی حضرات مقلد ہیں،کے نزدیک اگرسنت فجر رہ جائیں تو نہ فرضوں کے بعد ادا کرے اور نہ ہی سورج نکلنے کے بعد۔صاحب ہدایہ نے لکھا ہے:
"وإذا فاتته ركعتا الفجر لا يقضيهما قبل طلوع الشمس لأنه يبقى نفلا مطلقا وهو مكروه بعد الصبح ولا بعد ارتفاعها عند أبي حنيفة وابي يوسف"(ہدایہ 1/72 طبع بیروت باب ادراک الفریضۃ)
"اور جب آدمی سے فجر کی دو رکعت فوت ہوجائیں تو انہیں سورج نکلنے سے پہلے قضا نہ کرے۔اس لیے کہ اب وہ مطلق نفل ہیں اور صبح کی نماز کے بعدنفل ادا کرنا مطلق طور پر مکروہ ہیں اور نہ ہی انہیں سورج نکلنے کے بعد ادا کرے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور قاضی ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک۔"
صاحب ہدایہ کی توضیح سے معلوم ہوا کہ فقہ حنفی میں شیخین کے نزدیک جس کی صبح کی سنت رہ جائیں نہ وہ صبح کی نماز کے بعد اداکرے اور نہ ہی سورج نکلنےکے بعد یعنی ان کا موقف صحیح حدیث کےبھی خلاف ہے اور ضعیف حدیث کے بھی کیونکہ صحیح حدیث کی رو سے فجر کی فوت شدہ سنت نماز فجر ادا کرنے کے بعد قضاء کی جاسکتی ہیں جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔اور جن احادیث میں مطلق طور پر نماز فجر کے بعد نماز کی ممانعت ہے ان میں سے یہ دو رکعت صحیح حدیث کی رو سے مقید ہیں۔لہذا ان کی ادائیگی میں کوئی کراہت نہیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب