السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقہ میں ایک رسم رائج ہے کہ جب میت کو جنازہ گاہ لے جاتے ہیں تو ساتھ کچھ سامان اور رقم بھی لے جاتے ہیں، جنازے کے بعد دائرہ بنا کر اس سامان اور رقم کے ارد گرد بیٹھ جاتے ہیں اور اس پر قرآن مجید رکھ کر ایک دوسرے کو بخشتے رہتےہیں پھر رقم اور سامان لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے، اس عمل سے وہ سمجھتے ہیں کہ میت بخشی گئی ہے، اسے حیلہ اسقاط کہا جاتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن و حدیث اور اسلاف سے اس حیلہ اسقاط کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ، بلکہ ایسا کرنا بدعت ہے۔ کیونکہ جو کام خیر القرون میں نہیں ہوا ( حالانکہ اس وقت بھی اس کے اسباب موجود تھے۔ حتیٰ کہ ائمہ اربعہ بلکہ ان کے گرامی قدر شاگردوں سے بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ اس حیلے سے یہ خیال کرنا کہ میت کے ذمے جو نمازیں ہیں وہ معاف ہو جائیں گی یہ بھی بلا دلیل ایک مفروضہ ہے۔ حالانکہ اگر کوئی زندہ شخص ، میت کی طرف سے نمازیں پڑھنا چاہے تاکہ اس سے معاف ہو جائیں تو اس کی بھی اجازت نہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ آیا کوئی دوسرے کی طرف سے نماز ادا کر سکتا ہے؟ تو آ پ نے فرمایا: ’’کوئی آدمی دوسرے کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا۔ ‘‘[1]
اسی طرح میت کی طرف سے روزے بھی نہیں رکھے جا سکتے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا روایت میں س بات کی صراحت ہے کہ کوئی آدمی دوسرے شخص کی طرف سے روزہ نہیں رکھ سکتا۔ بلکہ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے ماہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ ‘‘[2]
جس حدیث میں میت کی طرف سے روزہ رکھنے کا ذکر ہے ۔ [3]
اس سے مراد نذر کے روزے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ جب کوئی شخص رمضان میں بیمار ہوا اور پھر فوت ہو گیا لیکن رمضان کے روزے نہ رکھ سکا تو اس کی طرف سے کھانا کھلا دیا جائے اس پر قضا نہیں، اگر اس نے نذر مانی تھی تو اس کا وارث قضا دے۔ ‘‘[4]
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہی بات نقل کی ہے۔ [5]
بہر حال حیلہ اسقاط ایک ناجائز عمل ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ مرنے کے بعد صدقہ و خیرات کرنے سے گناہوں کے معاف ہونے کی امید کی جا سکتی ہے، اس کی طر ف سے نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے کی قطعاً کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی ایسا کرنا جائز ہے۔ ( واللہ اعلم)
[1] موطاامام مالك ، الصیام : ۶۷۵۔
[2] ترمذی، الصوم: ۷۱۸۔
[3] صحیح بخاری، الصوم : ۱۹۵۲۔
[4] ابو داود ، الصیام : ۲۴۰۱۔
[5] ابو داود ، الصیام : ۲۴۰۰۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب