سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(527) پیوند کاری کے لئے خنزیر کے اعضاء کا استعمال کرنا

  • 20790
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 698

سوال

(527) پیوند کاری کے لئے خنزیر کے اعضاء کا استعمال کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی مجبوری کی بناء پر انسانی جسم کی پیوند کاری کے لئے خنزیر کے اعضاء استعمال کئے جا سکتے ہیں ، کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی حیثیت واضح کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 خنزیر بہت بُری اور گندی طبیعت کا حامل جانور ہے ، اس کے بدن میں تمام جہان کی بیماریاں اور نجاستیں ہیں جو کسی بھی طرح کی صفائی سے دور نہیں ہو سکتیں ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دیا ہے بلکہ قرآن کریم نے اسے ’’رجس‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور یہ ایک ایسا جامع کلمہ ہے جس کے اندر گندگی ، نجاست ، اذیت اور ضرررسانی کا ہر مفہوم شامل ہے۔ بوقت ضرورت انسانی جسم کی پیوند کاری کی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت عرفجہ بن اسعد رضی اللہ عنہ کی ناک دور جاہلیت میں جنگ کلاب کے دوران کٹ گئی تھی تو انہوں نے چاندی کی ناک لگوائی لیکن وہ جسم کے موافق نہ آئی اور اس میں تعفن پڑ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سونے کی ناک لگوانے کی اجازت دے دی۔[1]  

لیکن پیوند کاری کے لئے خنزیر کےکسی عضو کو استعمال کرنا کس طرح بھی درست نہیں کیونکہ یہ حرام اور نجس ہے اور شریعت نے اسے انسان کی فلاح و بہبود کے لئے ہی حرام کیا ہے۔ یہ حرام اشیاء کبھی تو جسمانی طور پر انسان کے لئے ضرررساں ہوتی ہیں اور کبھی اس کے اخلاق و کردار کو تباہ کر دیتی ہیں، اگرچہ ظاہری طور پر ان میں کوئی فائدہ بھی ہوتا ہے تاہم ان میں نقصان کا پہلو بہر صورت غالب رہتا ہے، بعض اوقات ہماری ظاہر بین آنکھیں اس نقصان کے ادراک سے قاصر رہتی ہیں۔

خنزیر ناپاک اور نجس ہونے کی بنا پر سراسر نقصان دہ اور ضرررساں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس میں کسی بھی پہلو سے فائدہ نہیں رکھا۔ قرآن مجید میں اگرچہ اس کے گوشت کا ذکر ہے تاہم اس کے بال ، ہڈیاں اور پوست و پٹھے وغیرہ سب حرام اور نجس ہیں ، اس لئے ہمارے رجحان کے مطابق اس کے جسم کا کوئی حصہ بھی انسانی جسم کے لئے بطور پیوند کاری استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ( واللہ اعلم)


[1] نسائی ، الزنیة : ۵۱۶۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:458

محدث فتویٰ

تبصرے