سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(525) کیا علاج معالجہ توکل کے منافی ہے؟

  • 20788
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1324

سوال

(525) کیا علاج معالجہ توکل کے منافی ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری دونوں آنکھوں میں موتیا آ چکا ہے ، دیکھنے میں کافی دقت محسوس ہوتی ہے ، میرا حج بیت اللہ کا بھی ارادہ ہے، لیکن تادم تحریر علاج کرانے سے انکاری ہوں ، جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان ہے کہ جو لوگ علاج اور دم وغیرہ نہیں کراتے وہ جنت میں بغیر حساب و کتاب داخل ہوں گے، میں بھی یہ فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہوں ، اس سلسلہ میں میری راہنمائی کریں اور اپنے رجحان کا صاف اظہار کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 سوال میں جس حدیث کو بنیاد بنا کر علاج معالجہ کو توکل کے منافی قرار دیا گیا ہے اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میری امت سے ستر ہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو ں گے ، جو دم جھاڑ نہیں کرائیں گے اور بدشگونی بھی نہیں لیں گے اور وہ اپنے رب پر توکل کریں گے۔‘‘[1]

ایک روایت میں ہے کہ وہ علاج کی خاطر آگ سے داغ نہیں دیں گے۔ [2]

صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ دم کریں گے اور نہ کروائیں گے ۔ [3]

اس حدیث کو بنیاد بنا کر علاج معالجے کو توکل کے منافی خیال کیا جاتا ہے جیسا کہ سائل نے وضاحت کی ہے کہ وہ مذکورہ فضیلت حاصل کرنے کے لئے اپنی آنکھوں کے موتیا کا علاج نہیں کروارہے ، حالانکہ اس حدیث میں مطلق علاج کی نفی نہیں بلکہ علاج کی ایک صورت کو بیان کیاگیاہے کہ آگ کے ذریعے علاج کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں فرمائی ہے، آپ نے فرمایا: ’’ تین قسم کی دواؤں میں خیر و برکت ہے: 1 شہد پینے میں، 2 سینگی کے نشتر میں اور 3 آگ کے داغنے میں۔ لیکن میں اپنی امت کو آگ کے داغنے سے منع کرتا ہوں۔ ‘‘[4]

اس حدیث کی روشنی میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ مطلق طور پر علاج معالجہ تو کل کے منافی نہیں بلکہ وہ علاج توکل کے منافی ہے جو آگ سے داغ دینے کے ذریعے ہو۔ اس لئے سائل کو اپنے علاج معالجے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ( واللہ اعلم) 


[1] صحیح بخاری ، الرقاق: ۶۴۷۲۔

[2] صحیح بخاری ، الرقاق : ۵۴۴۱۔

[3] صحیح مسلم ، الایمان : ۳۷۴۔

[4] صحیح بخاری ، الطب : ۵۷۰۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:456

محدث فتویٰ

تبصرے