سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(495) چاند گرہن کے وقت کیا کرنا چاہیے؟

  • 20758
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 779

سوال

(495) چاند گرہن کے وقت کیا کرنا چاہیے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پچھلے دنوں ماہ جون میں چاند گرہن لگا، جو رات گیارہ بجے سے صبح چار بجے تک جاری رہا، پورا چاند گرہن کی لپیٹ میں آگیا حتیٰ کہ اندھیرا ہو گیا، حاملہ خواتین چلتی پھرتی رہیں، مبادا ان کا حمل ضائع ہو جائے، اس سلسلہ میں عورتوں کو ہدایات دی جاتی رہیں، کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ نیز بتائیں کہ چاند یا سورج گرہن کے وقت کیا کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ تبوک سے واپس آئے تو آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم فوت ہو گئے، اتفاقاً اس دن سورج کو گرہن لگ گیا تو لوگوں میں یہ خیال جنم لینے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کی وفات کی بنا پر سورج بے نور ہوا ہے۔ اس وقت آپ نے لوگوں کے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے خطبہ دیا اور فرمایا: ’’ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے انہیں گرہن نہیں لگتا جب تم یہ حالت دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ ‘‘[1]

سورج یا چاند کے گرہن کے وقت درج ذیل باتوں کا اہتمام کرنا چاہیے:

٭ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید اور تکبیر و اذکار کا خاص اہتمام کیا جائے۔        ٭ صلوٰۃ کسوف کا اہتمام کیا جائے۔

 ٭ گرہن صاف ہونے تک نماز پڑھتے رہنا چاہیے۔                                 ٭  اللہ تعالیٰ کے راستہ میں صدقہ خیرات کی جائے۔

یہ تمام باتیں احادیث سے ثابت ہیں[2]

باقی رہا حاملہ خواتین کے حمل ضائع ہونے کا اندیشہ ، یہ خواتین کی طرف سے خود ساختہ پابندیاں ہیں، احادیث میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے ، اس قسم کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہیے۔ یہ معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ عجیب بات ہے کہ جن باتوں کا گرہن کے وقت اہتمام کرنا چاہیے، اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا اور جن باتوں کا شریعت میں کوئی ذکر نہیں ہے، اس کی طرف بہت توجہ دی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں دین سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین !


[1] صحیح بخاری، الکسوف : ۱۰۴۷۔

[2] صحیح بخاری ، الکسوف : ۱۰۴۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:435

محدث فتویٰ

تبصرے