السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری چھوٹی بچی بہت فرماں بردار اور خدمت گزار ہے، میں اسے کچھ عطیہ نقدی کی صورت میں دینا چاہتی ہوں جبکہ میرے دوسرے بچے بھی ہیں، کیا شریعت میں ایسا کرنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
والدین اپنے بچوں کے لئے بہت مہربان ہوتے ہیں ، بعض اوقات والدین سے حسن سلوک اور جذبہ اطاعت گزاری کی بنیاد پر محبت و پیار میں فرق آ سکتا ہے جو انسان کے بس میں نہیں۔ اگرچہ حدیث میں اس قسم کے تفاوت کو پسند نہیں کیا گیا جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں: ’’ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ اس کا بیٹا وہاں آ گیا، اس شخص نے اپنے بیٹے کا منہ چوما اور اسے اپنی ران پر بٹھا لیا، پھر اس کی بیٹی آئی تو اس نے اسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا، اس تفاوت کو دیکھ کر آپ نے فرمایا: ’’ تم نے ان دونوں کے درمیان عدل کیوں نہیں کیا۔ ‘‘[1]
تاہم بعض اوقات انسان بے اختیار ہوتا ہے لیکن مالی معاملات میں ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے کہ انسان اپنی اولاد میں سے کسی کو مالی عطیہ دے اور دوسروں کو محروم کرے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ اللہ سے ڈرو اور اپنے بچوں کے درمیان عدل و انصاف کرو۔ ‘‘[2]
اس حدیث کےپیش نظر والدین کو چاہیے کہ وہ مالی معاملات میں اپنی اولاد کے متعلق عدل و انصاف سے کام لیں، کیونکہ بعض اوقات اس قسم کی نا انصافی سے بچوں میں بغض و عداوت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ( واللہ اعلم)
[1] أحادیث الصحیحة : ۳۰۹۸۔
[2] صحیح البخاري ، الھبة : ۲۵۸۷۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب