سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(464) بازار میں عورتوں کے عریاں قسم کا لباس پہننا

  • 20727
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 684

سوال

(464) بازار میں عورتوں کے عریاں قسم کا لباس پہننا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل بازاروں میں صورت حال یہ ہے کہ عورتیں عریاں قسم کا لباس پہنے ہوئے ہوتی ہیں، وہاں مردوزن کا اختلاط بھی ہوتا ہے، اس قسم کے بازار میں جانے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اس قسم کے بازار میں ضرورت کے بغیر جانا درست نہیں۔ ویسے بھی بازار کا شور و شغب ایک مسلمان کے لئے موزوں نہیں، بالخصوص جب وہاں اس قسم کی صورت حال سے دو چار ہونا پڑے جو سوال میں ذکر کی گئی ہے، تاہم اگر سخت ضرورت کے پیش نظر وہاں جانا نا گزیر ہو تو ان امور کو پیش نظر رکھنا چاہیے:

1  نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرے، مسلمان کے لئے یہ ایک مذہبی فریض ہے۔

2  نظریں جھکاتے ہوئے اور اسباب فتنہ سے بچتے ہوئے وہاں جائے۔

3  اپنے دین اور عزت کی حفاظت کی حرص لے کر اور شر کے وسائل سے دور رہتے ہوئے وہاں جائے، اگر اس میں طاقت ہو تو اس قسم کے بازار میں برائی سے روکنے کےلئے جانا باعث اجر و ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ اس امت کے متعلق فرماتے ہیں:

’’ تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو خیر و بھلائی کی طرف لوگوں کو دعوت دے ، نیکی کی تلقین کرے اور برے کاموں سے روکے، یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ ‘‘[1]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : جب لوگ برائی دیکھنے کے بعد اسے نہیں روکیں گے تو قر یب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا میں انہیں بھی شامل کر لے۔[2]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے اس کی برائی بیان کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل میں ہی اسے برا خیال کرے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔[3]

ان آیات و احادیث کے پیش نظر ایک مسلمان کسی سخت ضرورت کےپیش نظر بازار میں جا سکتا ہے البتہ اسے درج بالا آداب کو ضرور ملحوظ رکھنا ہو گا۔ ( واللہ اعلم )


[1] آل عمران: ۱۰۴۔

[2] ابن ماجه ، الفتن : ۴۰۰۵۔

[3] ابن ماجه ، الفتن : ۴۰۱۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:409

محدث فتویٰ

تبصرے