سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(457) کتا پالنا

  • 20720
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1479

سوال

(457) کتا پالنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے گھر میں ایک کتیا ہے جو ہم سے بہت مانوس ہو چکی ہے، ہم اسے جان سے مارنا بھی نہیں چاہتے، کیا اسے رکھنے میں کوئی شرعی قباحت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 کتا ایک خبیث اور نجس جانور ہے، اس کی نجاست تمام جانوروں سے بڑھ کر ہے کیونکہ اس کی وجہ سے نجاست آلود برتن پاک کرنے کے لئے اسے سات مرتبہ دھونا پڑتا ہے ، ان میں ایک بار اسے مٹی سے دھویا جاتاہے۔ اس لئے ایک مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ اس فضول شوق میں اپنا وقت اور پیسہ برباد کرے۔ البتہ کتے کو تین مقاصد کے لئے رکھنے کی اجازت ہے جو حسب ذیل ہے:  1  شکار کرنے کے لئے  2  مال مویشی کی حفاظت کے لیے 3  کھیتی کی نگرانی کے لئے۔

ان تین مقاصد کے علاوہ کتا پالنا حرام ہے، اگر کوئی مسلمان ان مقاصد کے علاوہ کتا گھر میں رکھتا ہے تو اس کے اجر سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہوتی رہتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ جس گھرانے نے جانوروں کی حفاظت اور شکاری کتے کے علاوہ کتا پالا تو ان کے اجر سے ہر روز دو قیراط ثواب کم ہو جاتا ہے۔ ‘‘[1]

اجر میں کمی کا مطلب اس شخص کا گنہگار ہونا ہے ، اس بناء پر ہمارا رجحان یہ ہے کہ بلا مقصد گھر میں کتا رکھنا، یہ کفار کی تقلید ہے ایک مسلمان کے شایان شان نہیں۔

سوال میں ہے کہ کتیا گھر سے مانوس ہو چکی ہے اس لئے وہ گھر چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ ہم انہیں مشورہ دیں گے کہ اہل خانہ اسے گھر سے نکال دیں اور اپنے گھر میں نہ رہنے دیں وہ گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے خود بخود ایسی جگہ کا رخ کرے گی جہاں اسے کھانے پینے کے لئے کچھ ملے گا جیسا کہ دوسرے کتوں کو ملتا ہے۔ بہر حال اس کا گھر سے مانوس ہونا اسے گھر میں رکھنے کا کوئی معقول بہانہ نہیں۔ اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے جس گھر میں کتا موجود ہوتا ہے۔[2] ( واللہ اعلم)


[1] بخاری، اللباس: ۵۹۴۹۔

[2] صحیح البخاري، الذبائح: ۵۴۷۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:404

محدث فتویٰ

تبصرے