سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(448) بچوں کے ساتھ محبت و پیار میں مساویانہ سلوک

  • 20711
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2121

سوال

(448) بچوں کے ساتھ محبت و پیار میں مساویانہ سلوک

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مالی معاملات میں تو حکم ہے کہ باپ کو اولاد سے مساویانہ سلوک کرنا چاہیے، کیا محبت و پیار میں بھی مساوات کا حکم ہے اور اسے تمام بچوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا چاہیے؟ اس کے متعلق اسلامی ہدایات کیا ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

والدین عموماً اپنی اولاد کے لئے مہربان ہوتے ہیں اور اپنے بچوں سے محبت و پیار سے پیش آتے ہیں، مگر بعض اوقات کسی وجہ سے رحمت و شفقت کا جذبہ کم و بیش ہو سکتا ہے کیونکہ جذبہ اطاعت گزاری اور والدین سے حسن سلوک یا بچے کی کوئی بیماری یا کمزوری والدین کی طرف سے زیادہ التفات اور ترجیح کا باعث بن سکتی ہے، ویسے بھی ضروریات میں تو مساوات نہیں ہو سکتی، البتہ ضروریات کے علاوہ تحفہ وغیرہ دینے میں اللہ تعالیٰ نے باپ کو پابند کیا ہے کہ وہ عدل و انصاف اور مساوات سے کام لے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم اللہ سے ڈرو اور اپنے بچوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات کرو۔‘‘[1]

لیکن محبت و پیار میں کمی بیشی ہو سکتی ہے کیونکہ اس میں مساوات انسانی بس میں نہیں ، اگرچہ ہمارے بعض اسلاف عدل و انصاف کے پیش نظر بچوں کو بوسہ دیتے وقت بھی برابری کا خیال رکھتے تھے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اس دوران اس کا بیٹا بھی آ گیا، اس نے اپنے بیٹے کا منہ چوما اور اسے اپنی ران پر بٹھا لیا پھر اس کی بیٹی آئی تو اس نے اسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا، یہ انداز اور رویہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تو نے ان دونوں کے درمیان عدل کیوں نہیں کیا ۔ ‘‘ [2]

بہر حال والدین کو کوشش کرنا چاہیے کہ وہ اپنی اولاد میں محبت اور پیار کرنے میں بھی عدل و انصاف کریں اور دانستہ طور پر کسی بچے کو دوسرے پر ترجیح نہ دیں، اگر کسی وقت ایسا ہو جائے تو اس کی کسی مناسب وقت میں تلافی کر دینا چاہیے تاکہ بچوں میں باہمی نفرت و کدورت کے جذبات پروان نہ چڑھیں۔ ( واللہ اعلم)


[1] صحیح البخاري ، الحصبة : ۲۵۸۷۔

[2] سلسلة الأحادیث الصحیحة: ۳۰۹۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:398

محدث فتویٰ

تبصرے