سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(445) مردوں کے لئے مہندی کا استعمال

  • 20708
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 4105

سوال

(445) مردوں کے لئے مہندی کا استعمال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مرد حضرات ہاتھ یا پاؤں پر مہندی لگا سکتے ہیں، ہمارے ہاں شادی بیاہ کے موقع پر مرد بھی مہندی لگاتے ہیں، اس کے متعلق وضاحت درکار ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 مہندی سے ہاتھ پاؤں رنگنا عورتوں کی زینت ہے، مردوں کو ایسی زینت سے منع کیا گیا ہے جسے عورتیں استعمال کرتی ہوں۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا ہیجڑہ لایا گیا جس نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں پر مہندی لگا رکھی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ اس نے ایسا کیوں کیا ہے؟ ‘‘ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! اسی طرح یہ عورتوں سے مشابہت اختیار کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اسے مدینہ کی آبادی سے نکال کر نقیع کے علاقہ میں چھوڑ آؤ، لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم اسے قتل نہ کردیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مجھے نمازی حضرات کو قتل کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔‘‘[1]

راوی ابو اسامہ بیان کرتے ہیں کہ نقیع، مدینہ طیبہ سے ایک جانب جگہ کا نام ہے جو بقیع سے الگ ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہندی لگانا عورتوں کی زینت ہے اور مرد حضرات کو اس کی اجازت نہیں، اس ممانعت کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوئی جسے حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد حضرات کو زعفران لگانے سے منع کیا ہے۔ [2]

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’ مردوں کو ہاتھ اور پاؤں رنگنے کی ممانعت ہے ہاں بطور دواء مہندی استعمال کی جا سکتی ہے۔‘‘ [3]

بطور دواء استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گرمی یا آگ سے جلنے کی وجہ سے ہاتھ اور پاؤں پر چھالے پڑ جائیں تو زخموں پر مہندی لگانے میں چنداں حرج نہیں لیکن بطور فیشن مہندی کے ساتھ اپنے ہاتھ اور پاؤں رنگنا مردوں کے لئے جائز نہیں، لہٰذا شادی کے موقع پر مرد حضرات کو مہندی استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ( واللہ اعلم)


[1] سنن أبي داؤد ، الادب : ۴۹۲۸۔

[2] صحیح البخاري، اللباس: ۵۸۴۶۔

[3] فتح الباري ص ۳۶۷ ج ۱۰۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:396

محدث فتویٰ

تبصرے