السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے چھوٹے بھائی کی شہادت کے چھ ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹا عطا فرمایا، اس وقت اس کی بیوی اپنے والدین کے پا س تھی ، ہماری خواہش ہے کہ بھائی کی بیوی بچے سمیت ہمارے پاس رہے لیکن بچے کی نانی نے سخت رد عمل کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ اب ددھیال والوں کا کوئی حق نہیں رہا، وہ اپنی بیٹی کا سامان وغیرہ بھی لے گئے ہیں، بھائی کی شہادت کے ڈیڑھ سال بعد اس کی بیوی نے دوسری شادی بھی کر لی ہے، ہماری خواہش ہے کہ بھائی کا بیٹا ہمارے ہاں پرورش پائے، قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں کہ یتیم بچے کی پرورش کا حق کسے ہے؟ جبکہ ننھیال والے بچے کو ددھیال والوں سے ملنے ملانے کی بھی اجازت نہیں دیتے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت اسلامیہ نے بچے کی پرورش و پرداخت کا حقدار ماں کو ٹھہرایا ہے جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرا یہ بٹیا ہے، میرا پیٹ اس کے لئے برتن تھا، میری چھاتی اس کے لئے مشکیزہ تھی اور میری آغوش اس کے لئے جائے قرار تھی ، اس کے والد نے بھی مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ مجھ سے اس بچے کو بھی چھیننا چاہتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس بچے کی زیادہ حقدار ہے جب تک عقد ثانی نہیں کرتی۔[1]
اس حدیث میں ایسے تین اوصاف بیان ہوئے ہیں جو بچے کی پرورش کے سلسلہ میں ماں کے ساتھ خاص ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس بناء پر دیا کہ بچے کے حق میں ماں انتہائی مہربان ہوتی ہے اور اس کی پرورش و نگرانی میں وہ مرد کی نسبت زیادہ قدرت رکھتی ہے ، ہاں اگر ایسے عوارض پیش آ جائیں جن کی وجہ سے بچے کے حق میں ماں کی اس محبت و شفقت کے معدوم ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ماں کا حق پرورش ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے مقصود بچے کی فلاح و بہبود ہے اور پرورش کے معاملہ میں بچے کی بہبودکو فوقیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقد ثانی کے بعد ماں کو اس حق سے محروم قرار دیا ہے کیونکہ اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ شوہر ثانی کے حقوق کی ادائیگی میں مصروف رہنے کی وجہ سے اپنے سابق شوہر کے بچے کی پرورش کا حق صحیح طور پر ادا نہ ہو سکےگا، اس لئے ضروری ہے کہ حق پرورش کے معاملہ میں بچے کی فلاح و بہبود کا لحاظ رکھا جائے اور حالات کے تقاضے کو نظر انداز نہ کیا جائے، جہاں تک ممکن ہو ماں کو اولیت دی جائے تاکہ اس کی مامتا کا تحفظ ہو بشرطیکہ وہاں کوئی امر مانع نہ ہو۔ چنانچہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’ جس امر میں بچے کے لئے مصلحت و خیر خواہی کا پہلو زیادہ ہو اسے اختیار کرنا چاہیے اگر باپ کے مقابلہ میں ماں زیادہ صحیح تربیت و حفاظت کر سکتی ہو اور غیرت مند عورت ہو تو ماں کو باپ پر ترجیح دی جائے گی، اس صورت میں قرعہ اندازی اور اختیار میں سے کسی چیز کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا کیونکہ بچہ تو کم فہم، نادان اور ناعاقبت اندیش ہوتا ہے، ماں باپ میں سے جو بچے کا زیادہ خیال رکھنے والا ہو بچہ اس کے حوالے کر دیا جائے۔‘‘ [2]
یہ بھی واضح رہے کہ فلاح و بہود سے مراد صرف جسمانی طور پر پرورش و پرداخت کرنا مقصود نہیں بلکہ حسن تربیت اور ذہنی نشو و نمازمیں رخنہ اندازی کا باعث ہو تو اس قسم کی عورت کو بھی حق پرورش سے محروم کر دیا جائے گا۔ ‘‘ ( حوالہ مذکورہ)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’ اگر ماں کسی غیر محفوظ مقام پر رہائش رکھے ہوئے ہے یا اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے تو باپ کو اپنی اولاد کی پرورش کا حق حاصل ہو گا۔ ‘‘[3]
صورت مسؤلہ میں عورت نے عقد ثانی کر لیا ہے ، ا س لئے حدیث کے مطابق اسے حق پرورش سے محروم ہونا چاہیے ، بہر حال بچہ کسی کے پاس بھی ہو، اس کی ملاقات پر قدغن لگانا مستحسن اقدام نہیں۔ صورت مسؤلہ میں ننھیال والوں کا کردار انتہائی محل نظر ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اندر نرم گوشہ پیدا کریں اور ددھیال والوں کو بچے سے ملنے کے معاملہ میں اس قدر سختی نہ کریں۔ ( واللہ اعلم)
[1] سنن أبي داؤد ، الطلاق : ۲۲۷۶۔
[2] زاد المعاد ص ۴۷۴ ج۵۔
[3] فتاویٰ ص ۳۴ ج۱۳۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب