سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(431) خلوت کا مفہوم

  • 20694
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1267

سوال

(431) خلوت کا مفہوم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

احادیث میں اجنبی مرد و عورت کی خلوت ممنوع ہے، اس خلوت کا کیا مفہوم ہے ، کیا اس کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے لوگوں سے اوجھل ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غیر محرم کے ساتھ کسی بھی عورت کا تنہائی اختیار کرنا حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ کوئی عورت بھی کسی مرد سے محرم کی موجودگی کے بغیر خلوت نہ کرے۔‘‘ [1]

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ خبر دار! جو آدمی بھی کسی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرتا ہے ان دونوں کا تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ ‘‘[2]

شرعی طور پر حرام خلوت سے مراد صرف یہ نہیں ہےکہ کوئی مرد کسی عورت سے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر کسی گھر میں خلوت کرے اور اس سے راز و نیاز کی باتیں کرے بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ دونوں کسی جگہ پر اکیلے ہوں اور ایک دوسرے سے سر گوشیاں کرتے پھریں ، ان دونوں کے درمیان بات چیت کا دور چلے خواہ وہ لوگوں کے سامنے ہی کیوں نہ ہو اور لوگ ان کی باتیں نہ سن سکیں، یہ بھی حرام خلوت میں شامل ہے۔ دور حاضر میں خلوت کا بدترین ذریعہ موبائل فون اس میں شامل ہے۔ اس کے ذریعے ماں باپ ، بھائیوں کے سامنے خلوت کی جاتی ہے، اس کے ذریعے بات چیت سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے بلکہ گھر سے فرار ہونے کے پروگرام بنائے جاتے ہیں، اللہ کی شریعت میں خلوت اس لئے حرام کی گئی ہے کہ یہ زنا اور بد کاری کا وسیلہ اور اس کا پیغام ہے، لہٰذا یہ جس صورت میں بھی پایا جائے وہ خلوت حرام میں داخل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ ‘‘[3]

والدین کو چاہیے کہ وہ اس پہلو سے بھی اپنی اولاد پر نظر رکھیں، ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن اولاد کے ساتھ انہیں بھی دھر لیا جائے اور دنیا میں جو رسوائی اور جگ ہنسائی ہو گی وہ اس کے علاوہ ہو گی۔ واللّٰہ المستعان


[1]   مسند أحمد ص ۳۳۹ ج ۳۔

[2] جامع ترمذي ، الفتن : ۲۱۶۵۔

[3] صحیح البخاري،النکاح : ۵۰۹۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:385

محدث فتویٰ

تبصرے